logo

ورچوئل ایسٹ آرڈیننس: پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت کے نئے دور کی شروعات

ورچوئل ایسٹ آرڈیننس

ورچوئل ایسٹ آرڈیننس پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت کے میدان میں ایک تاریخی قدم تصور کیا جا رہا ہے۔ یہ قانون نہ صرف کرپٹو کرنسی، بلاک چین اور ویب 3.0 جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو ریگولیٹ کرے گا بلکہ ملک میں مالی شفافیت اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع بھی پیدا کرے گا۔ ایسے وقت میں جب دنیا ڈیجیٹل کرنسیوں اور اسمارٹ ٹیکنالوجیز کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے، پاکستان کے لیے یہ فیصلہ مستقبل کی سمت طے کرنے والا ہے۔

یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اب ڈیجیٹل فنانس کے چیلنجز اور مواقع کو نظر انداز کرنے کے بجائے انہیں ایک باقاعدہ قانونی ڈھانچے میں لانا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ قانون پاکستان کی معیشت میں استحکام لائے گا یا مزید سوالات کو جنم دے گا؟

حکومت نے حال ہی میں ’’ورچوئل ایسٹ آرڈیننس‘‘ متعارف کرایا ہے جو ابتدائی طور پر چار ماہ کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت “پی وی اے آر اے” نامی ایک خودمختار وفاقی ادارہ قائم کیا جا رہا ہے جو ڈیجیٹل اثاثوں سے متعلق تمام معاملات کو کنٹرول کرے گا۔ اس اتھارٹی کو نہ صرف بین الاقوامی معیارات کے مطابق کام کرنے کا اختیار دیا گیا ہے بلکہ یہ ادارہ اینٹی منی لانڈرنگ، مالی سالمیت اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے بھی ذمہ دار ہوگا۔

پارلیمانی قائمہ کمیٹیاں آئندہ ہفتے سے اس آرڈیننس پر باضابطہ بحث شروع کریں گی، جبکہ مستقل قانون بنانے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی منظوری درکار ہوگی۔ اگر یہ قانون منظور ہو گیا تو پاکستان پہلی مرتبہ ایک منظم ریگولیٹری فریم ورک کے ساتھ ڈیجیٹل کرنسی اور بلاک چین ٹیکنالوجی کو قانونی حیثیت دے گا۔

آرڈیننس میں “ریگولیٹری سینڈ باکس” کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جو ایک ایسا پلیٹ فارم ہوگا جہاں نئی ٹیکنالوجیز اور کاروباری ماڈلز کو نگرانی کے تحت آزمایا جا سکے گا۔ وزیر خزانہ نے اس موقع پر کہا کہ جدید ٹیکنالوجیز معیشت کو تیز، سستا اور زیادہ مؤثر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان کے مطابق اگر بلاک چین اور ویب 3.0 پاکستان کے مالی نظام کو مضبوط بنا سکتے ہیں تو ملک کو اسی سمت بڑھنا ہوگا۔

پس منظر

پاکستان میں کرپٹو کرنسی اور بلاک چین پر بحث کئی سالوں سے جاری ہے۔ اس سے قبل اسٹیٹ بینک نے 2018 میں کرپٹو ٹریڈنگ پر پابندی عائد کر دی تھی، جس کے بعد یہ شعبہ غیر رسمی طور پر چلتا رہا۔ کئی نوجوان اور کاروباری افراد نے بٹ کوائن، ایتھیریئم اور دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں میں سرمایہ کاری کی، لیکن قانونی حیثیت نہ ہونے کے باعث اکثر لوگ مشکلات کا شکار ہوئے۔

عالمی سطح پر دیکھا جائے تو دبئی، سنگاپور اور ملائیشیا نے کرپٹو ریگولیشن کے ذریعے نہ صرف سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ عالمی سطح پر اعتماد بھی حاصل کیا۔ پاکستان اب انہی ملکوں کی طرز پر ڈیجیٹل معیشت کو منظم کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ردعمل

اس آرڈیننس پر ماہرین اور عوام کی مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ ٹیکنالوجی ماہرین نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت سنجیدگی سے اس قانون پر عمل درآمد کرے تو پاکستان خطے میں ایک مضبوط ڈیجیٹل حب بن سکتا ہے۔

دوسری طرف، کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کی کمی اس قانون کے مؤثر نفاذ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے بھی ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا، کچھ نے اسے “ڈیجیٹل انقلاب” قرار دیا جبکہ دوسروں نے کہا کہ عملی سطح پر اس قانون کی کامیابی حکومت کی نیت اور شفافیت پر منحصر ہوگی۔

تجزیہ

ورچوئل ایسٹ آرڈیننس معیشت پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ سب سے پہلے، اس قانون کے ذریعے غیر قانونی کرپٹو ٹریڈنگ پر قابو پایا جا سکے گا، جس سے مالیاتی نظام میں اعتماد بڑھے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ عالمی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہوں گے کیونکہ اب ایک باقاعدہ ریگولیٹری اتھارٹی موجود ہوگی۔

سیاسی طور پر دیکھا جائے تو یہ قانون حکومت کو ایک “جدید سوچ رکھنے والی” حکومت کے طور پر پیش کر سکتا ہے، خاص طور پر نوجوان نسل اور ٹیکنالوجی سے وابستہ افراد کے درمیان۔ معیشت کے لیے یہ قدم نہ صرف مالی لین دین کو محفوظ بنائے گا بلکہ مستقبل کی نئی ٹیکنالوجیز جیسے AI اور Web 3.0 کے لیے بھی راستہ ہموار کرے گا۔

مستقبل کے اثرات

اگر یہ قانون مستقل طور پر منظور ہو جاتا ہے تو پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی ایک باضابطہ مالیاتی نظام کا حصہ بن سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں نئے اسٹارٹ اپس، فن ٹیک کمپنیوں اور بین الاقوامی اداروں کو ملک میں سرمایہ کاری کا موقع ملے گا۔

مزید یہ کہ، “ریگولیٹری سینڈ باکس” کے ذریعے نوجوان کاروباری افراد کو نئے آئیڈیاز آزمانے کا موقع ملے گا، جس سے مقامی سطح پر اختراعات (innovation) اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ پاکستان کی معیشت کو نہ صرف ڈیجیٹل دور کے مطابق ڈھالے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی پوزیشن مضبوط کرے گا۔

نتیجہ

ورچوئل ایسٹ آرڈیننس بلاشبہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں ایک سنگ میل ہے۔ اگرچہ چیلنجز اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن اس قانون کے ذریعے پاکستان عالمی مالیاتی نظام میں اپنا مقام بہتر بنا سکتا ہے۔ اب یہ حکومت اور پارلیمنٹ پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اور ملک کو کس سمت لے کر جاتے ہیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر یہ قانون کامیابی سے نافذ ہو گیا تو پاکستان ڈیجیٹل انقلاب کی جانب بڑھنے والے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔