logo

پنجاب میں قوانین پر عملدرآمد کی کمزوری: پیرا اتھارٹی سے عوام کو کیا امیدیں ہیں؟

پنجاب میں قوانین پر عملدرآمد

پنجاب میں قوانین پر عملدرآمد ہمیشہ کمزور رہا ہے۔ نئی اتھارٹی پیرا کے قیام سے کیا تبدیلی ممکن ہے؟ عوام، ماہرین اور حکومت کی توقعات جانیں۔

پنجاب میں قوانین کی موجودگی کے باوجود شہریوں کی روزمرہ زندگی میں ان کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چاہے بات قیمتوں کے کنٹرول کی ہو، خوراک کے معیار کی، یا بچوں کو مزدوری سے بچانے کی—کاغذی ضابطے اکثر صرف فائلوں تک محدود رہتے ہیں۔ اس صورتحال نے عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

اسی پس منظر میں صوبائی حکومت نے ایک نئی اتھارٹی پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیشن اتھارٹی (پیرا) قائم کی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ قوانین صرف کتابوں میں نہ رہیں بلکہ عملی طور پر شہریوں کی زندگی میں بہتری لائیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ نیا ادارہ کس حد تک مؤثر ثابت ہو سکے گا؟

محکمہ استغاثہ پنجاب کی ایک جامع تحقیق کے مطابق 2020 سے 2023 تک مختلف قوانین کے تحت ہزاروں مقدمات درج ہوئے، لیکن سزا کی شرح حیران کن حد تک کم رہی۔ مثال کے طور پر قیمتوں کے کنٹرول سے متعلق 2,297 مقدمات درج ہوئے، لیکن صرف 13 فیصد کیسز میں سزا ہو سکی۔ اسی طرح خوراک میں ملاوٹ اور سیفٹی قوانین کے 2,494 کیسز میں بھی کامیابی محض 13 فیصد رہی۔

چائلڈ لیبر قوانین کے تحت تقریباً 1,891 مقدمات درج ہوئے، مگر سزا صرف 10 فیصد کیسز تک محدود رہی۔ ڈینگی کنٹرول ایکٹ کے تحت تو صورتحال اور بھی تشویشناک نکلی، جہاں 13,665 کیسز میں سزا کی شرح صرف 7 فیصد تھی۔

یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ قوانین کی موجودگی کے باوجود ان پر عملدرآمد کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں تھا۔ مختلف محکموں کو ذمہ داریاں تو سونپی گئی تھیں لیکن ان کے پاس نہ وسائل تھے، نہ تربیت، اور نہ ہی سیاسی یا انتظامی حمایت۔ یہی خلا عوامی زندگی میں بے یقینی اور استحصال کا باعث بنتا رہا۔

اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے 2024 میں “پیرا” کے قیام کا اعلان کیا گیا، جسے ایک خودمختار ادارے کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد قوانین پر سختی سے عملدرآمد اور متعلقہ محکموں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے تاکہ عوام کو فوری ریلیف مل سکے۔

پس منظر

پنجاب میں قوانین کے نفاذ کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں مختلف حکومتوں نے ذخیرہ اندوزی، تجاوزات اور ماحولیاتی مسائل کے خلاف قوانین تو بنائے، لیکن ان پر عملدرآمد ہمیشہ کمزور رہا۔

ایک بڑی وجہ یہ رہی کہ اختیارات کئی اداروں میں تقسیم تھے۔ پولیس اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتی، بلدیاتی ادارے حدود کا بہانہ بناتے اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ اپنے پاس نفاذ کے وسائل نہ ہونے کی دلیل دیتا۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ عوام مہنگائی، غیر معیاری خوراک، غیر قانونی قبضوں اور صحت کے مسائل کا شکار ہوتے گئے۔

عوامی و ماہرین کے ردعمل

پیرا کے قیام پر مختلف حلقوں کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ عام شہریوں نے اسے امید کی ایک کرن قرار دیا ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اگر یہ ادارہ واقعی مؤثر ہوا تو روزمرہ زندگی میں واضح فرق نظر آئے گا۔

دوسری طرف بعض ماہرین کا خیال ہے کہ نئے ادارے بنانے کے بجائے موجودہ محکموں کو مضبوط کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن کئی تجزیہ کاروں کے مطابق، ایک متحدہ اور بااختیار ادارہ اس وقت زیادہ بہتر حل ہے تاکہ قوانین پر فوری اور مؤثر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے۔

تجزیہ

اگر پیرا کامیابی سے کام کرتا ہے تو یہ صرف ایک ادارے کی کامیابی نہیں بلکہ پورے نظام کی اصلاح کی طرف ایک بڑا قدم ہوگا۔ مؤثر قوانین کا مطلب ہے کہ ذخیرہ اندوز اپنی من مانی نہیں کر سکیں گے، اشیائے خور و نوش معیاری ہوں گی، بچوں کو جبری مشقت سے نجات ملے گی اور شہری صحت مند ماحول میں زندگی گزار سکیں گے۔

معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو بہتر قانون نافذ کرنے کا براہ راست تعلق سرمایہ کاری اور کاروباری ماحول سے بھی ہے۔ ایک ایسا صوبہ جہاں قوانین پر سختی سے عمل ہو، وہاں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار زیادہ اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری کریں گے۔

مستقبل کے امکانات

پیرا کا اصل امتحان آنے والے چند سال ہوں گے۔ اگر یہ ادارہ سیاسی دباؤ سے آزاد اور شفاف طریقے سے کام کرے تو عوامی اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف قوانین پر عملدرآمد بہتر ہوگا بلکہ معاشرتی انصاف بھی مضبوط ہوگا۔

ممکنہ طور پر مستقبل میں اس ماڈل کو دوسرے صوبوں میں بھی اپنایا جا سکتا ہے، کیونکہ پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی یہی مسائل موجود ہیں۔ اگر پنجاب اس میں کامیاب ہوا تو یہ ایک قومی سطح پر اصلاحات کی بنیاد بن سکتا ہے۔

نتیجہ

پنجاب میں قوانین پر عملدرآمد کی کمزوری برسوں سے عوام کے لیے ایک بڑا مسئلہ رہی ہے۔ پیرا اتھارٹی کا قیام بلاشبہ ایک اہم اور بروقت اقدام ہے۔ تاہم، اس کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کیا یہ ادارہ مستقل مزاجی، شفافیت اور غیر سیاسی بنیادوں پر کام کر پاتا ہے یا نہیں۔

عوامی امید یہی ہے کہ یہ نیا نظام اس بار صرف کاغذی نہیں بلکہ عملی ثبوت فراہم کرے گا، تاکہ قانون واقعی شہریوں کی زندگیوں میں تحفظ اور آسانی لے کر آئے۔