ڈونلڈ ٹرمپ فوجی تعیناتی کے حالیہ عندیے نے امریکی سیاست میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ شکاگو جیسے بڑے شہر میں فوج بھیجنے کے اعلان نے نہ صرف مقامی حکام کو تشویش میں مبتلا کر دیا بلکہ عوام اور ماہرین بھی اس کے اثرات پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ معاملہ محض سکیورٹی نہیں بلکہ انتخابی سیاست اور طاقت کے استعمال کا بھی عکاس ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کے کئی شہروں میں جرائم کی شرح، معاشی مشکلات اور مہاجرین کے مسائل پر کشیدگی پہلے ہی بڑھ رہی ہے۔ ایسے حالات میں صدر کی جانب سے فوجی طاقت استعمال کرنے کی بات کو کئی حلقے غیر جمہوری اور خطرناک قرار دے رہے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ جس طرح واشنگٹن ڈی سی میں تقریباً 2000 فوجی تعینات کیے گئے تھے، اسی طرز پر شکاگو اور نیویارک میں بھی فوجی بھیجے جا سکتے ہیں۔ ان کے بقول یہ اقدام “بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پانے” اور “شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے” کے لیے ضروری ہے۔
الینوائے کے ڈیموکریٹک گورنر جے بی پرٹزکر نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ شکاگو میں فوجی تعیناتی “اختیارات کا غلط استعمال” ہے۔ ان کے مطابق ریاست میں ایسی کوئی صورتحال موجود نہیں جو فوجی مداخلت کو جواز فراہم کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ مصنوعی طور پر بحران پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنی پالیسیوں کو جائز ثابت کر سکیں۔
BREAKING: The Pentagon has been secretly planning a military deployment to Chicago, with options including thousands of National Guard troops as soon as next month, in a model Trump says could be expanded to other major cities.
-Washington Post pic.twitter.com/RVRxGTikBi— Republicans against Trump (@RpsAgainstTrump) August 24, 2025
اسی طرح شکاگو کے میئر برینڈن جانسن نے بھی کہا کہ انہیں اس فیصلے پر کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی اور یہ اقدام “غیر مربوط اور بلاجواز” ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی تعیناتی شہری اداروں اور عوام کے درمیان تناؤ کو بڑھا سکتی ہے، جبکہ جرائم میں کمی کے لیے پہلے سے جاری حکومتی اقدامات متاثر ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب امریکی وزیر دفاع نے واشنگٹن ڈی سی میں تعینات نیشنل گارڈ اہلکاروں کو مسلح کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ اس فیصلے سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اب فوجی صرف علامتی موجودگی سے بڑھ کر براہِ راست قانون نافذ کرنے والے آپریشنز میں بھی حصہ لیں گے یا نہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق آنے والے ہفتوں میں تقریباً 1700 نیشنل گارڈ اہلکار مزید متحرک کیے جائیں گے، جنہیں مختلف ریاستوں میں بھیجا جائے گا۔ واشنگٹن میں پہلے ہی 700 سے زائد گرفتاریاں اور غیر قانونی ہتھیاروں کی برآمدگی رپورٹ ہو چکی ہے، لیکن مقامی حکومت کا دعویٰ ہے کہ جرائم کی شرح پہلے ہی کم ترین سطح پر ہے اور فوجی تعیناتی غیر ضروری ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب کسی امریکی صدر نے داخلی معاملات میں فوجی طاقت استعمال کرنے کی کوشش کی ہو۔ ماضی میں بھی مختلف صدور نے نیشنل گارڈ یا فوجی اہلکاروں کو عوامی ہنگاموں یا فسادات کے دوران تعینات کیا، لیکن عام طور پر یہ اقدامات محدود اور وقتی نوعیت کے ہوتے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یہ رجحان زیادہ نمایاں رہا ہے۔ انہوں نے اپنی پالیسیوں کو سختی اور طاقت کے استعمال کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا، خاص طور پر امیگریشن، سرحدی سکیورٹی اور بڑے شہروں میں بڑھتے جرائم کے تناظر میں۔ واشنگٹن ڈی سی میں فوجی بھیجنے کے بعد اب شکاگو اور نیویارک کو اس فہرست میں شامل کرنا ان کے سخت گیر رویے کو مزید نمایاں کرتا ہے۔
عوامی سروے کے مطابق واشنگٹن میں 80 فیصد شہری فوجی تعیناتی کے مخالف ہیں۔ شکاگو میں بھی ابتدائی عوامی ردعمل منفی رہا، جہاں شہریوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ قدم شہری آزادیوں کو متاثر کرے گا۔
ڈیموکریٹک رہنماؤں نے اسے “وفاقی حکومت کی غیر ضروری مداخلت” قرار دیا ہے۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ جرائم کی شرح پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات ضروری ہیں، اور اگر مقامی حکومتیں ناکام ہیں تو وفاق کو کردار ادا کرنا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر بھی یہ معاملہ ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے، جہاں شہری دو بڑے حصوں میں تقسیم نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تحفظ کی بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف شہری آزادیوں کے سلب ہونے کا خوف۔
ماہرین کے مطابق یہ اقدام محض سکیورٹی کا معاملہ نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی کا حصہ بھی ہے۔ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ وہ خود کو “قانون اور نظم” کے صدر کے طور پر پیش کریں تاکہ آئندہ انتخابات میں اپنے حامیوں کو متحرک کر سکیں۔
اگرچہ فوجی تعیناتی سے وقتی طور پر جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے، لیکن یہ اقدام شہری اداروں پر اعتماد کو کمزور کر سکتا ہے۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ کے کردار کو نظرانداز کرنے سے طویل المدتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
اگر یہ پالیسی شکاگو اور دیگر شہروں تک پھیلتی ہے تو امکان ہے کہ امریکہ میں وفاقی اور ریاستی حکومتوں کے درمیان مزید کشیدگی پیدا ہو۔ قومی ایمرجنسی کے نفاذ کی بات بھی کی جا رہی ہے، جو صورتِ حال کو مزید پیچیدہ کر سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے کانگریس سے اربوں ڈالر کے اضافی فنڈز مانگے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ محض عارضی منصوبہ نہیں بلکہ ایک طویل المدتی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم اس کے اثرات امریکی معاشرت، سیاست اور معیشت پر گہرے ہوں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ فوجی تعیناتی کا اعلان بظاہر سکیورٹی کے نام پر کیا گیا ہے، لیکن اس کے پیچھے سیاسی، سماجی اور انتخابی عوامل کارفرما ہیں۔ عوامی مخالفت اور ریاستی حکومتوں کے اعتراضات اس معاملے کو مزید متنازع بنا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ آیا یہ پالیسی محض طاقت کا مظاہرہ ثابت ہوتی ہے یا واقعی امریکہ کے بڑے شہروں میں امن قائم کرنے میں مددگار بنتی ہے۔