بھارت، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتی ہے، اس وقت اپنے سب سے معتبر انتخابی ادارے یعنی الیکشن کمیشن پر بڑھتے ہوئے سوالات اور تنازعات کا سامنا کر رہا ہے۔ بھارت الیکشن کمیشن بحران نہ صرف سیاسی میدان کو ہلا رہا ہے بلکہ عوامی اعتماد پر بھی کاری ضرب لگا رہا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے لگائے گئے سنگین الزامات اور عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی نے اس معاملے کو قومی بحث کا موضوع بنا دیا ہے۔
یہ تنازع صرف ایک ادارے کی ساکھ کا معاملہ نہیں بلکہ بھارت کے انتخابی عمل، جمہوری روایت اور مستقبل کی سیاست پر بھی براہ راست اثر ڈال سکتا ہے۔
گزشتہ کچھ ہفتوں میں اپوزیشن جماعتوں نے بھارت کے الیکشن کمیشن پر ووٹر لسٹوں میں بے ضابطگیوں، جعلی اندراجات اور جانبداری کے الزامات لگائے ہیں۔ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے بہار میں “ووٹر ادھیکار یاترا” کے نام سے 1300 کلومیٹر طویل احتجاجی مارچ شروع کیا، جسے الیکشن کمیشن کے خلاف سب سے بڑی عوامی مہم قرار دیا جا رہا ہے۔
ان کا الزام ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی کے ساتھ ملی بھگت کے ذریعے 2024 کے عام انتخابات اور بہار کے آئندہ ریاستی انتخابات میں دھاندلی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ راہل گاندھی نے دعویٰ کیا کہ ایک ہی نشست پر لاکھوں جعلی ووٹر درج ہیں، جن میں ڈپلیکیٹ اندراج اور فوت شدہ افراد کے نام بھی شامل ہیں۔
“The Election Commission of India which has unquestionable authority over the preparation of electoral roll and the conduct of elections, chose to adopt a procedure that has no precedence and little logic” 🔥🔥
– Ashok Lavasa former EC in the Indian Express pic.twitter.com/6Ws7VmDvrL
— Aradhiya (@aradhiyakumar0) August 24, 2025
الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ دعوے “غلط اور گمراہ کن” ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ “ووٹ چوری جیسی اصطلاحات آئین کی توہین ہیں، اور جو لوگ یہ دعوے کر رہے ہیں، انہیں شواہد کے ساتھ اپنے موقف کو ثابت کرنا ہوگا۔”
دوسری جانب، بہار میں ووٹر لسٹ کے حالیہ ریویژن کے دوران تقریباً 6.5 ملین ووٹرز کو نکالا گیا، جس پر اپوزیشن نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ لاکھوں شہری بالخصوص تارکین وطن ووٹ کے حق سے محروم ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کو بھی مداخلت کرنا پڑی اور حکم دیا کہ کمیشن ایک سرچ ایبل فہرست جاری کرے تاکہ شفافیت قائم ہو سکے۔
بھارت کا الیکشن کمیشن طویل عرصے تک ایک غیر جانبدار اور معتبر ادارہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں کئی سخت فیصلے اور شفاف انتخابات اس کے کریڈٹ پر موجود ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں بی جے پی کے بڑھتے اثر و رسوخ اور اپوزیشن کی مسلسل شکایات نے اس کی غیر جانبداری پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
2008 میں بھی کرناٹک میں 52 لاکھ ووٹرز کو فہرست سے نکال دیا گیا تھا، لیکن اس وقت یہ عمل انتخابی شفافیت کے طور پر سراہا گیا۔ آج وہی عمل تنازع کا باعث بن رہا ہے کیونکہ سیاسی ماحول مزید تقسیم اور کشیدگی کا شکار ہو چکا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے کمیشن پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کا رویہ حکمران جماعت کے حق میں جانبدارانہ ہے۔ کانگریس کے رہنما پون کھیڑا نے کمیشن کے بیانات کو “بی جے پی کا ترجمان” قرار دیا۔ دوسری طرف، حکمران جماعت نے اپوزیشن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب ممکنہ شکست کے خوف سے پھیلائی جانے والی پروپیگنڈا مہم ہے۔
عوامی سطح پر بھی اعتماد میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔ حالیہ سروے میں بتایا گیا کہ 2019 کے مقابلے میں 2025 میں الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد رکھنے والوں کی شرح کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ خاص طور پر اتر پردیش اور بہار میں عوامی ناراضی میں اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بحران بھارت کی جمہوری ساکھ کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ انتخابی ادارے پر عوامی اعتماد ختم ہونا کسی بھی جمہوری ملک کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔ اگر ووٹر کو یقین نہ ہو کہ اس کا ووٹ محفوظ اور بامعنی ہے تو پورا انتخابی نظام سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
سیاسی طور پر دیکھا جائے تو یہ تنازع اپوزیشن کو عوامی حمایت حاصل کرنے کا موقع دے سکتا ہے، جبکہ حکمران جماعت کے لیے یہ ایک بڑا دفاعی چیلنج ہے۔ معاشرتی طور پر، عوامی بے اعتمادی مزید تقسیم اور احتجاج کو جنم دے سکتی ہے۔
قریب آتے ہوئے بہار کے انتخابات میں یہ معاملہ سب سے بڑا انتخابی ایشو بن سکتا ہے۔ اگر کمیشن شفافیت اور غیر جانبداری ثابت نہ کر سکا تو اپوزیشن اس کو اپنے بیانیے کا مرکز بنائے گی۔ یہ تنازع 2024 کے عام انتخابات کے نتائج اور ان کی ساکھ پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی بھارت کی جمہوریت پر سوالات اٹھ سکتے ہیں، جو اس کے سیاسی امیج اور عالمی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
بھارت الیکشن کمیشن بحران اس وقت بھارتی سیاست کا سب سے بڑا موضوع ہے۔ یہ صرف ایک ادارے پر الزام کا معاملہ نہیں بلکہ جمہوری نظام کی شفافیت اور عوامی اعتماد کا امتحان ہے۔ آنے والے مہینے یہ طے کریں گے کہ آیا کمیشن اپنی غیر جانبداری ثابت کر پائے گا یا نہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ عوام کے اعتماد کے بغیر جمہوریت کی بنیادیں کمزور پڑ سکتی ہیں۔