logo

سونے کے ذخائر کی نیلامی: نیب کے اعتراضات اور خیبر پختونخوا حکومت کا مؤقف

سونے کے ذخائر کی نیلامی

سونے کے ذخائر کی نیلامی پر نیب کے اعتراضات اور خیبر پختونخوا حکومت کے دعوے سامنے آئے۔ معاملے کی پیچیدگیاں، عوامی ردعمل اور مستقبل کے اثرات جانیں۔

سونا دنیا بھر میں طاقت اور دولت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ قیمتی دھات زمین کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی ہے اور اگر درست منصوبہ بندی سے اسے نکالا جائے تو ملکی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں خیبر پختونخوا کے دریائے سندھ اور دریائے کابل کے قریب موجود سونے کے بلاکس کی نیلامی نے نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے اس عمل پر شدید اعتراضات اٹھائے ہیں اور شکوک و شبہات ظاہر کیے ہیں کہ یہ نیلامی صوبے کو کھربوں روپے کے نقصان کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

یہ معاملہ محض معدنیات یا نیلامی کا نہیں بلکہ شفافیت، گورننس اور عوامی مفاد سے جڑا ایک بڑا سوال ہے۔ ایک طرف حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے تاریخی بلند ترین قیمت پر یہ بلاکس نیلام کیے، جبکہ دوسری طرف نیب کہہ رہا ہے کہ حقائق چھپائے گئے اور قواعد کی خلاف ورزی ہوئی۔

نیب کی رپورٹس کے مطابق دریائے سندھ اور دریائے کابل کے قریب موجود سونے کے بلاکس کی نیلامی میں شفافیت کا فقدان رہا۔ ان کا مؤقف ہے کہ لیز ہولڈرز غیر قانونی سب لیزنگ میں ملوث ہیں اور فی ایکسکیویٹر ہفتہ وار لاکھوں روپے کماتے ہیں جبکہ حکومت کو صرف برائے نام آمدنی مل رہی ہے۔ نیب کے تخمینے کے مطابق علاقے میں 1,500 سے زائد ایکسکیویٹرز کام کر رہے ہیں جن کی مجموعی آمدنی ہفتہ وار اربوں روپے بنتی ہے، مگر حکومتی خزانے تک اس کا معمولی حصہ ہی پہنچتا ہے۔

دستاویزات کے مطابق، نیب نے اعتراض اٹھایا ہے کہ نیلامی کے وقت “ریزرو پرائس” جان بوجھ کر کم رکھی گئی اور سونے کے ذخائر کے درست اعداد و شمار کو نظر انداز کیا گیا۔ 2015 میں نیشنل سینٹر آف ایکسیلنس ان جیولوجی کی رپورٹ میں فی ٹن 0.21 سے 44.15 گرام سونا ظاہر کیا گیا تھا، لیکن اس تحقیق کو نظرانداز کر کے مخصوص بولی دہندگان کو فائدہ پہنچایا گیا۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے یہ بلاکس ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ نرخ پر نیلام کیے۔ ان کے مطابق ماضی میں ایک بلاک کی زیادہ سے زیادہ قیمت 65 کروڑ روپے تھی لیکن موجودہ حکومت نے کم از کم قیمت ایک ارب 10 کروڑ مقرر کی اور چار بلاکس تقریباً 4 ارب 60 کروڑ روپے میں فروخت کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ بیس سال سے کوئی باضابطہ نیلامی نہیں ہوئی تھی اور لوگ غیر قانونی کان کنی کر رہے تھے، اس لیے ان کی حکومت نے یہ اقدام اٹھایا۔

یہ معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوا جب پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع (Stay Order) کے باوجود کان کنی کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ نیب نے اس پر بھی اعتراض کیا کہ قانونی طور پر نیلامی کے بعد معاہدہ 14 دن میں مکمل ہونا چاہیے تھا لیکن مہینوں کی تاخیر کے باوجود الاٹمنٹ لیٹرز جاری کر دیے گئے۔

پس منظر

خیبر پختونخوا اور خصوصاً دریائے سندھ کے اطراف کو ہمیشہ سے معدنی دولت سے مالا مال علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی غیر قانونی کان کنی یہاں ایک سنگین مسئلہ رہا ہے جس سے نہ صرف حکومت کو مالی نقصان پہنچا بلکہ ماحولیات کو بھی شدید خطرات لاحق ہوئے۔

پاکستان میں معدنی وسائل کی نیلامی کا طریقہ کار اکثر تنازعات کا شکار رہا ہے۔ چاہے وہ ریکو ڈیک کا معاملہ ہو یا دیگر معدنی ذخائر، شفافیت پر سوالات ہمیشہ اٹھتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اور ماہرین نیب کے حالیہ اعتراضات کو محض الزام تراشی کے بجائے سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔

ردعمل

عوامی سطح پر اس خبر نے کافی تشویش پیدا کی ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین کا کہنا ہے کہ اگر واقعی کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے تو یہ عوام کے ٹیکس دہندگان کے ساتھ ناانصافی ہے۔ کچھ حلقے یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ سونے جیسے اہم قومی وسائل کو صرف مقامی بولی دہندگان تک محدود کیوں رکھا گیا اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو کیوں متوجہ نہ کیا گیا۔

سیاسی سطح پر اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو skandalous نیلامی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جبکہ حکومت اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے کہ اس نے ہر قانونی تقاضا پورا کیا۔ ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اگر شفافیت یقینی نہ بنائی گئی تو نہ صرف صوبے کو مالی نقصان ہوگا بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی منفی اثر پڑے گا۔

تجزیہ

یہ معاملہ محض ایک نیلامی نہیں بلکہ پاکستان کے وسائل کے انتظامی ڈھانچے کا امتحان ہے۔ اگر نیب کے اعتراضات درست ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ صوبہ اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کی ممکنہ آمدنی سے محروم ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب حکومت کا مؤقف بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ کم از کم انہوں نے دو دہائیوں بعد یہ عمل شروع کیا اور غیر قانونی کان کنی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ نیلامی بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوئی اور کیا مستقبل میں صوبہ اس سے حقیقی فائدہ اٹھا سکے گا یا نہیں۔

مستقبل پر اثرات

اگر اس معاملے کی شفاف تحقیقات ہوئیں تو ممکن ہے کہ مستقبل میں معدنی وسائل کی نیلامی کے نئے اور بہتر قواعد بنیں۔ اس سے نہ صرف صوبے کو زیادہ آمدنی حاصل ہو سکتی ہے بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کار بھی دلچسپی لے سکتے ہیں۔

تاہم اگر معاملہ غیر شفاف ہی رہا تو اس سے نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پورے ملک کی معدنی پالیسی پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ غیر قانونی کان کنی اور ماحولیاتی تباہی کے خدشات بھی بڑھ جائیں گے۔

نتیجہ

سونے کے ذخائر کی نیلامی پر پیدا ہونے والا تنازعہ پاکستان کے وسائل کی شفافیت اور گورننس پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایک طرف حکومت اپنے اقدامات کو درست قرار دے رہی ہے، دوسری طرف نیب سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کر رہا ہے۔ حقیقت کیا ہے، یہ صرف آزاد اور غیر جانبدار تحقیقات ہی سامنے لا سکتی ہیں۔

یہ معاملہ عوام، ماہرین اور پالیسی سازوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ معدنی وسائل محض دھاتیں نہیں بلکہ ملکی مستقبل کا سرمایہ ہیں، جنہیں ضائع کرنے کی گنجائش نہیں۔