نارنجی نرس شارک کی دریافت نے سمندری حیات کے ماہرین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ عموماً شارک کو بھورے رنگ میں دیکھا جاتا ہے، لیکن کوسٹا ریکا کے ساحل پر نظر آنے والی یہ انوکھی مخلوق اپنی غیرمعمولی رنگت کی وجہ سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف سائنسی برادری بلکہ عام قارئین کے لیے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے، کیونکہ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فطرت کے پاس ابھی بھی ایسے راز ہیں جو انسان نے پوری طرح دریافت نہیں کیے۔
اس نارنجی نرس شارک نے یہ ثابت کر دیا کہ سمندر کی گہرائیوں میں اب بھی ایسی حیران کن مخلوقات موجود ہیں جو انسانی علم اور تحقیق کو چیلنج کر سکتی ہیں۔
کوسٹا ریکا کے ساحل پر موجود ٹورٹوگیرو نیشنل پارک کے قریب ایک فشنگ ایکسپڈیڈیشن کے دوران ماہی گیروں نے تقریباً 37 میٹر گہرائی سے چھ فٹ لمبی نرس شارک کو دریافت کیا۔ اس شارک کی سب سے منفرد خصوصیت اس کا چمکیلا نارنجی رنگ تھا، جو اس کی عام بھوری رنگت سے بالکل مختلف ہے۔
Rare orange shark with ghostly white eyes captured in first-of-its-kind sighting pic.twitter.com/kMuultaItq
— Daily Mail US (@Daily_MailUS) August 18, 2025
سائنسدانوں کے مطابق یہ رنگت ایک نایاب جینیاتی کیفیت “زینتھزم” (Xanthochromism) کی وجہ سے ہے۔ اس کیفیت میں سرخ رنگت کی کمی اور پیلے یا سنہری رنگ کی زیادتی کے باعث جانوروں کی جلد یا جسم غیرمعمولی نظر آنے لگتے ہیں۔ اس سے قبل مچھلیوں، پرندوں اور کچھ رینگنے والے جانوروں میں ایسے کیسز دیکھے گئے تھے، لیکن شارک میں یہ دریافت اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے۔
اس شارک کی سفید آنکھیں بھی حیران کن پہلو ہیں، جو عام طور پر البینزم میں دیکھی جاتی ہیں۔ ماہرین کے نزدیک یہ علامات اس کی بقا کو مشکل بنا سکتی ہیں کیونکہ بھوری رنگت کے بجائے نارنجی جلد اور سفید آنکھیں اسے سمندر کی تہہ میں چھپنے کے بجائے نمایاں کرتی ہیں، جس سے یہ دیگر شکاریوں کے لیے آسان ہدف بن سکتی ہے۔
نرس شارک (Nurse Shark) عام طور پر اپنے “بکل پمپ” کے ذریعے سانس لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ سمندر کی تہہ پر سکون سے لیٹ کر بھی زندہ رہ سکتی ہیں۔ ان کی بھوری رنگت انہیں ماحول میں گھلنے اور شکاریوں سے محفوظ رہنے میں مدد دیتی ہے۔
ماضی میں شارک کی رنگت میں تبدیلی کے چند کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، مگر وہ زیادہ تر البینزم یا میلینزم (سفید یا سیاہ رنگت کی زیادتی) سے جڑے تھے۔ زینتھزم کا شارک میں سامنے آنا بایولوجی اور جینیٹکس کے میدان میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔
اس دریافت پر سوشل میڈیا پر مختلف آراء سامنے آئیں۔ کچھ لوگوں نے اسے “قدرت کا شاہکار” قرار دیا تو کچھ نے تشویش ظاہر کی کہ اس قسم کی جینیاتی تبدیلیاں ماحولیات کی خرابی یا آلودگی سے بھی منسلک ہو سکتی ہیں۔
سائنسدانوں نے تاہم عوام کو یقین دلایا ہے کہ یہ دریافت زیادہ تر قدرتی جینیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے، اور اس پر مزید تحقیق جاری رہے گی۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس نارنجی نرس شارک کو “Nature’s Golden Surprise” کا نام دیا۔
یہ دریافت نہ صرف سائنسی تحقیق میں ایک نیا دروازہ کھولتی ہے بلکہ اس سے میرین بایولوجی میں کئی سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔ کیا یہ جینیاتی تبدیلی نرس شارک کی ایک نئی ذیلی نسل کی نشاندہی کر رہی ہے؟ یا پھر یہ ایک منفرد مگر عارضی مثال ہے؟
مزید برآں، یہ دریافت ہمیں یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ سمندر کی گہرائیوں میں موجود دیگر مخلوقات میں بھی ایسی پوشیدہ خصوصیات ہو سکتی ہیں جن سے ہم ابھی ناواقف ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شارک پر مزید جینیاتی تحقیق نہ صرف نرس شارک بلکہ دیگر سمندری انواع کے بارے میں بھی نئے حقائق سامنے لا سکتی ہے۔ مستقبل میں ممکن ہے کہ یہ دریافت سمندری حیات کے تحفظ کے نئے پروگرامز کا حصہ بنے، کیونکہ جینیاتی تنوع کسی بھی ماحولیات کے نظام کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
مزید یہ کہ ایسی دریافتیں عام عوام میں ماحولیات اور سمندری حیات کے تحفظ کے شعور کو بڑھا سکتی ہیں۔ اگر یہ تحقیق مزید آگے بڑھی تو یہ بھی ممکن ہے کہ سمندر میں جینیاتی بیماریوں اور تبدیلیوں کو سمجھنے کے نئے راستے کھل جائیں۔
کوسٹا ریکا کے قریب پکڑی جانے والی یہ نارنجی نرس شارک فطرت کے ان گنت رازوں میں سے ایک اور جھلک ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سمندر صرف پانی کا ذخیرہ نہیں بلکہ ایک زندہ دنیا ہے جس میں حیرت انگیز مخلوقات بستی ہیں۔
یہ دریافت جہاں سائنس کے لیے ایک نیا باب ہے وہیں عام انسانوں کے لیے ایک دلچسپ کہانی بھی ہے، جو یہ ثابت کرتی ہے کہ قدرت اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ہمیں ہمیشہ حیران کرتی رہے گی۔