logo

امریکہ کا بگ بیوٹی فل بل: قرض کی حد میں اضافہ یا نیا عالمی مالی بحران؟

امریکہ کا بگ بیوٹی فل بل

امریکہ کا بگ بیوٹی فل بل قرض کی حد بڑھانے کی کوشش ہے جو وقتی سہارا دے سکتا ہے مگر عالمی معیشت کو نئے بحران میں دھکیلنے کا خطرہ ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا امریکہ کا بگ بیوٹی فل بل قرض لینے کی حد کو بڑھانے کی کوشش ہے تاکہ امریکی معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بل وقتی ریلیف دے گا یا عالمی سطح پر ایک نئے مالی بحران کو جنم دے گا؟

انسانی تاریخ میں ہر طاقتور سلطنت عروج کے بعد زوال سے گزرتی ہے۔ ابنِ خلدون کی تھیوری کے مطابق جب حکومتیں زوال کی طرف بڑھتی ہیں تو ٹیکس بڑھ جاتے ہیں، مگر آمدنی کم ہو جاتی ہے۔ امریکہ کی موجودہ معاشی صورتحال بھی اسی تناظر میں نظر آتی ہے، جہاں بڑھتا ہوا قرض اور کمزور معاشی ڈھانچہ خطرناک اشارے دے رہا ہے۔

امریکہ کا قومی قرض اس وقت 34 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ ٹرمپ کے پیش کردہ بگ بیوٹی فل بل کے تحت قرض لینے کی حد میں مزید 5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد سرمایہ کاروں کو یقین دلانا ہے کہ امریکی حکومت اپنی مالی ذمہ داریاں پوری کر سکتی ہے اور مارکیٹ میں اعتماد بحال ہے۔

یہ بل کووڈ۔19 کے بعد معیشت کی بحالی کا ایک بڑا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ وبا کے دوران امریکی معیشت 3.4 فیصد سکڑ گئی اور چین نے عالمی معیشت میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ اس تناظر میں امریکہ قرض کی حد بڑھا کر اپنی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ سرمایہ کار امریکی ٹریژری بانڈز میں سرمایہ کاری کرتے رہیں۔

تاہم ناقدین کے مطابق یہ حکمت عملی خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔ زیادہ قرض، سیاسی دباؤ اور اچانک پالیسی تبدیلیاں امریکہ کو کمزور کر سکتی ہیں۔ خاص طور پر فیڈرل ریزرو پر ٹرمپ کا دباؤ، سود کی شرح کم کرنے کے مطالبات اور سرمایہ کاری کے مصنوعی رجحانات سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مزید متزلزل کر رہے ہیں۔

 پس منظر

امریکہ دنیا کی واحد معیشت ہے جو ڈالر کو بطور عالمی ریزرو کرنسی استعمال کر کے مسلسل قرض لیتی ہے۔ ٹریژری بانڈز کو محفوظ سرمایہ سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر حکومت انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے تو یہ نظام اپنی حقیقی طاقت کھو سکتا ہے۔

2008 کے مالی بحران کی مثال ابھی تک دنیا کے ذہنوں میں تازہ ہے جب مارکیٹ کی غیر حقیقی قدروں نے پوری عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ موجودہ وقت میں اگر امریکہ نے اسی طرح مصنوعی سہارا دیا تو دوبارہ ایک شدید مالی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

 عوامی اور ماہرین کا ردعمل

امریکہ میں عوامی سطح پر اس بل کو ملا جلا ردعمل ملا ہے۔ کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ قرض کی حد نہ بڑھائی گئی تو امریکہ اپنے وعدے پورے نہیں کر پائے گا، جس سے عالمی معیشت فوری طور پر متاثر ہو گی۔

لیکن ماہرین کا ایک بڑا طبقہ اس خدشے کا اظہار کر رہا ہے کہ مسلسل قرض پر انحصار خطرناک ہے۔ ان کے مطابق امریکہ اپنی معیشت کو وقتی سہارا دے سکتا ہے مگر طویل المدت میں اس سے دنیا بھر میں سرمایہ کاری کا بہاؤ بگڑ سکتا ہے۔

 تجزیہ

امریکہ کا بگ بیوٹی فل بل بظاہر ایک معاشی ریلیف ہے، لیکن یہ عالمی مالی نظام کے لیے نئے سوالات کھڑا کرتا ہے۔ ترقی پذیر معیشتوں کو اس سے زیادہ نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ سرمایہ کار امریکہ کو محفوظ سرمایہ کاری کی جگہ سمجھ کر اپنے اثاثے وہاں منتقل کریں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ چھوٹے ممالک کی کرنسی دباؤ کا شکار ہو گی اور ان کے قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے گا۔

دوسری طرف چین اور دیگر ممالک امریکہ کے بڑھتے قرض کو اپنی پالیسیوں میں چیلنج کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی خطے ڈالر پر انحصار کم کرنے، مقامی کرنسی میں تجارت بڑھانے اور بریکس جیسے پلیٹ فارمز پر متوازن مالی نظام قائم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

 مستقبل کے اثرات

اگر امریکہ نے قرضوں پر زیادہ انحصار جاری رکھا تو ایک نیا عالمی مالی بحران جنم لے سکتا ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہونے پر ٹریژری بانڈز کی قدر متاثر ہو گی اور عالمی مارکیٹوں میں شدید اتار چڑھاؤ آئے گا۔

دوسری طرف اگر خطے اپنی معیشتوں کو مضبوط کریں، مقامی سرمایہ کاری بڑھائیں اور علاقائی بلاکس کو فعال کریں تو وہ اس ممکنہ بحران کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ دنیا میں ابھرتی ہوئی معیشتیں سونے، کرپٹو کرنسی اور دو طرفہ کرنسی معاہدوں کو متبادل راستے کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔

 نتیجہ

امریکہ کا بگ بیوٹی فل بل وقتی طور پر امریکی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے، لیکن یہ قدم دنیا کے لیے ایک نئے بحران کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ قرض پر حد سے زیادہ انحصار، سیاسی دباؤ اور فیڈرل ریزرو کی خودمختاری پر حملے عالمی مالی نظام کو مزید غیر مستحکم بنا سکتے ہیں۔

ترقی پذیر ممالک کے لیے سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ وہ ڈالر پر انحصار کم کریں، مقامی معیشت کو مضبوط کریں اور علاقائی تعاون بڑھائیں۔ یہی واحد راستہ ہے جس سے ایک زیادہ متوازن اور محفوظ عالمی مالی نظام قائم ہو سکتا ہے۔