logo

ڈونلڈ ٹرمپ کا امن کارڈ: عالمی بحرانوں میں سابق امریکی صدر کا کردار

ڈونلڈ ٹرمپ کا امن کارڈ

ڈونلڈ ٹرمپ کا امن کارڈ عالمی سیاست میں زیرِ بحث ہے۔ کیا وہ یوکرین جنگ اور مشرقِ وسطیٰ جیسے بحرانوں میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟

دنیا اس وقت ایک کے بعد ایک بحران میں گھری ہوئی ہے۔ یوکرین اور روس کی جنگ، مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی، ایران کے ایٹمی پروگرام کے خدشات اور چین-امریکہ تناؤ نے عالمی منظرنامے کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ ایسے میں ایک پرانی لیکن طاقتور شخصیت دوبارہ عالمی سیاست میں زیرِ بحث ہے — سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔

ٹرمپ ہمیشہ اپنی غیر روایتی اور بعض اوقات متنازعہ سیاست کی وجہ سے خبروں میں رہے ہیں۔ مگر آج یہ سوال شدت سے اٹھ رہا ہے کہ کیا وہ واقعی ایک “امن کارڈ” بن سکتے ہیں جو دنیا کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو؟

ڈونلڈ ٹرمپ کا مؤقف موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن سے بالکل مختلف ہے۔ جہاں بائیڈن انتظامیہ یوکرین کو فوجی اور مالی امداد فراہم کرنے پر زور دیتی ہے، وہاں ٹرمپ بار بار مذاکرات اور سفارتکاری کی بات کرتے ہیں۔ مارچ 2024 کی ایک ریلی میں انہوں نے دعویٰ کیا: “اگر میں صدر ہوتا تو یہ جنگ کبھی شروع نہ ہوتی، اور اگر شروع بھی ہوتی تو میں 24 گھنٹوں میں ختم کرا دیتا۔”

مغربی میڈیا رپورٹس کے مطابق، ٹرمپ کے قریبی حلقے پسِ پردہ روس اور یوکرین کے رہنماؤں سے رابطے میں ہیں۔ بعض اطلاعات یہ بھی سامنے آئی ہیں کہ ٹرمپ نے براہِ راست روسی صدر پیوٹن کو فون کر کے یوکرین کے پاور پلانٹس پر حملے روکنے کی اپیل کی تھی۔ روس نے عارضی طور پر بجلی گھروں پر حملے روک دیے، جس سے ہزاروں شہری محفوظ مقامات پر منتقل ہو سکے۔ یہ مکمل امن معاہدہ تو نہیں تھا، مگر اس نے ٹرمپ کے دباؤ پر مبنی سفارتی انداز کی مؤثریت ضرور ظاہر کی۔

اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں بھی ٹرمپ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ 2018 میں انہوں نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کیا تھا، لیکن حالیہ اطلاعات کے مطابق انہوں نے دوبارہ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ غیر ملکی ذرائع کے مطابق ٹرمپ نے عمان کے ذریعے ایران کو ایک پیغام بھیجا ہے جس میں نئی شرائط پیش کی گئی ہیں: یورینیم افزودگی محدود سطح پر رکھنا، بین الاقوامی ایٹمی ادارے کو مکمل رسائی دینا اور خطے میں پراکسی سرگرمیاں بند کرنا۔ اس کے بدلے میں امریکا مرحلہ وار پابندیاں نرم کرنے اور تجارت کی اجازت دینے پر تیار ہے۔

پس منظر

ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں بھی کئی غیر روایتی اقدامات دیکھنے کو ملے۔ انہوں نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے براہِ راست ملاقات کی اور سرحد پار کر کے شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر بنے۔ اسی طرح “ابراہام معاہدے” کے ذریعے اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ان اقدامات نے ٹرمپ کو ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کیا جو دباؤ اور براہِ راست مذاکرات کے امتزاج سے تیز نتائج حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں، چاہے ان کا انداز کتنا ہی متنازع کیوں نہ ہو۔

ردِعمل

امریکی عوام میں ٹرمپ کے حوالے سے آراء تقسیم ہیں۔ کچھ سروے نتائج بتاتے ہیں کہ تقریباً نصف امریکی شہری سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ بین الاقوامی تنازعات کو موجودہ صدر سے بہتر طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر آزاد ووٹرز اور جنگی ریاستوں کے رہائشی انہیں زیادہ قابلِ عمل آپشن کے طور پر دیکھتے ہیں۔

دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ذاتی تعلقات پر مبنی سفارتکاری کرتے ہیں جو ادارہ جاتی نظام کو کمزور کرتی ہے۔ ان کے مطابق، وقتی نتائج ضرور مل سکتے ہیں لیکن طویل مدتی امن کے لیے یہ حکمتِ عملی کافی نہیں۔

تجزیہ

ٹرمپ کا انداز “دباؤ کے ذریعے امن” کا ہے۔ یہ سخت مگر نتیجہ خیز حکمتِ عملی انہیں ان رہنماؤں کے ساتھ بات کرنے کا اعتماد دیتی ہے جو روایتی سفارتکاری پر اعتماد نہیں کرتے۔ یوکرین-روس جنگ یا ایران کے ایٹمی پروگرام جیسے مسائل میں یہ طریقہ وقتی ریلیف تو دے سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ دیرپا حل فراہم کرے گا؟

اگر ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاؤس میں آتے ہیں تو ان کا اثر صرف امریکا تک محدود نہیں رہے گا بلکہ مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور ایشیا میں بھی محسوس ہوگا۔ ان کا غیر روایتی انداز روایتی ڈپلومیسی کو چیلنج کرتا ہے اور بعض اوقات تیز نتائج بھی دیتا ہے۔

مستقبل کے امکانات

اگر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو ممکن ہے کہ وہ یوکرین-روس جنگ میں فوری مذاکرات پر زور دیں، جس سے کم از کم جنگ بندی کی طرف پیش رفت ہو سکے۔ ایران کے ساتھ دوبارہ معاہدہ بھی ممکن ہے، جس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم ہو سکتی ہے۔

تاہم، اس سب کا انحصار نہ صرف ٹرمپ کی خواہش بلکہ دیگر طاقتور ممالک کی آمادگی پر بھی ہوگا۔ اگر عالمی طاقتیں ان کی غیر روایتی ڈیلز کو قبول کر لیں تو وہ واقعی ایک “امن کارڈ” بن سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر، ان کی کوششیں صرف وقتی اثر ڈالیں گی۔