دنیا ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ بڑھتے درجہ حرارت، غیر متوقع بارشیں، سیلاب اور خشک سالی نے انسانی زندگی کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔ اس پس منظر میں ماحولیاتی تبدیلی اور مصنوعی ذہانت (AI) کے امتزاج نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ ماہرین اب صرف عمومی AI ماڈلز پر انحصار نہیں کر رہے بلکہ مخصوص سیکٹرز کے لیے تیار کردہ ماڈلز پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ یہ ماڈلز نہ صرف ٹیکنالوجی کی دنیا میں جدت لا رہے ہیں بلکہ ماحولیات، زراعت اور پالیسی سازی کے میدان میں بھی انقلابی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں Sector-based AI Models کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔ ان ماڈلز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کسی خاص شعبے کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، زراعت میں استعمال ہونے والا Agrepreneur پلیٹ فارم چھوٹے کسانوں کو حقیقی وقت میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ کسانوں کو فصلوں کی بیماریوں سے بچاؤ، کھاد کے مؤثر استعمال اور بہتر مالی منصوبہ بندی کے طریقے بتاتا ہے۔ مشین لرننگ کی مدد سے کسانوں کی مالی حالت کا جائزہ لے کر انہیں قرضوں اور سبسڈی کے امکانات سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔
اسی طرح، Viamo سسٹم ان کسانوں کے لیے بنایا گیا ہے جن کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی نہیں۔ یہ پلیٹ فارم موبائل کالز کے ذریعے کسانوں کو آسان زبان میں زراعتی مشورے دیتا ہے۔ اس میں نیشنل لینگوئج پروسیسنگ اور ٹیکسٹ ٹو اسپیچ جیسی خصوصیات شامل ہیں تاکہ کسان جدید ٹیکنالوجی کو اپنی زبان میں سمجھ سکیں۔
AI’s impact on climate change is a dual-edged sword: it offers tools to mitigate and adapt, such as optimizing energy use and improving early warning systems, but its development and deployment also have significant negative environmental impacts(…) #AIandEnvironment pic.twitter.com/DAbGsN3mj7
— Parliamentary Intelligence Security Forum (@PISecurityForum) August 22, 2025
ماحولیاتی بحران کے تناظر میں سب سے نمایاں ماڈل ClimateGPT ہے۔ یہ سسٹم ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق تحقیقی مواد پر مبنی ہے اور حکومتوں، اداروں اور عام لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کس طرح ان کی زندگی پر اثر ڈال رہی ہے۔ ایشیا اور بحرالکاہل جیسے خطوں میں، جو قدرتی آفات کے لیے نہایت حساس ہیں، اس طرح کے ماڈلز سیلاب یا خشک سالی کے خدشات کی پیشگوئی کر کے بروقت اقدامات ممکن بناتے ہیں۔
ان ماڈلز کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ انہیں بنانے کے لیے بڑے بجٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر مناسب ڈیٹا دستیاب ہو تو ایک عام لیپ ٹاپ پر بھی بنیادی ماڈل تیار کیا جا سکتا ہے۔ GitHub اور Hugging Face جیسے پلیٹ فارمز نے اس عمل کو مزید آسان بنا دیا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے آغاز میں زیادہ تر فوکس ایسے بڑے ماڈلز پر تھا جو عمومی گفتگو یا معلومات فراہم کرتے تھے، جیسے کہ ChatGPT۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ واضح ہوا کہ ہر شعبے کے مسائل منفرد ہوتے ہیں اور ان کے لیے الگ الگ ٹیکنالوجی درکار ہے۔ زراعت، صحت، توانائی اور ماحولیات جیسے شعبے اب اپنے لیے مخصوص AI ماڈلز تیار کر رہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے، اقوام متحدہ اور دیگر ادارے برسوں سے خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا کو شدید بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ AI نے اس تناظر میں نئی راہیں کھول دی ہیں۔
کسان برادری نے ایسے ماڈلز کو امید کی نئی کرن قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پہلے وہ مقامی مشوروں پر انحصار کرتے تھے لیکن اب ٹیکنالوجی کے ذریعے سائنسی بنیادوں پر فیصلے کر سکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ماڈلز ترقی کی نئی جہت فراہم کر رہے ہیں، لیکن ان کے ساتھ احتیاط کی بھی ضرورت ہے کیونکہ غلط یا جانبدار ڈیٹا کی بنیاد پر بننے والے ماڈلز نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی صارفین ان ماڈلز کو ایک “گیم چینجر” قرار دے رہے ہیں۔
ان ماڈلز کے سیاسی اور معاشی اثرات بھی نمایاں ہیں۔ حکومتیں اگر انہیں اپنی پالیسی سازی میں شامل کریں تو بہتر منصوبہ بندی اور وسائل کی تقسیم ممکن ہو سکتی ہے۔ زراعت جیسے شعبوں میں پیداوار بڑھنے سے نہ صرف کسان مستفید ہوں گے بلکہ ملکی معیشت بھی مضبوط ہو گی۔
اسی کے ساتھ ساتھ، ان ماڈلز کے ذریعے ماحولیاتی خطرات کی پیشگوئی کر کے اربوں ڈالر کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ تاہم، “ریسپانسبل AI” فریم ورک اپنانا ضروری ہے تاکہ ٹیکنالوجی محفوظ اور منصفانہ انداز میں استعمال ہو۔
قریب مستقبل میں توقع ہے کہ ہر ملک اپنی ضروریات کے مطابق ماحولیاتی اور زرعی AI ماڈلز تیار کرے گا۔ یہ ماڈلز صرف بڑے اداروں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عام کسان اور چھوٹے کاروبار بھی ان سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
مزید یہ کہ جیسے جیسے ڈیٹا اکٹھا ہوتا جائے گا، یہ ماڈلز زیادہ مؤثر اور درست نتائج فراہم کریں گے۔ اس سے نہ صرف موجودہ بحرانوں پر قابو پایا جا سکے گا بلکہ مستقبل میں بھی بڑے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
آخرکار یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے بڑے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی سیکٹر بیسڈ ماڈلز نئی امید کا ذریعہ ہیں۔ اگر ان ماڈلز کو درست ڈیٹا اور ذمہ دارانہ حکمت عملی کے تحت استعمال کیا جائے تو یہ نہ صرف کسانوں اور عام لوگوں کی زندگی آسان بنا سکتے ہیں بلکہ دنیا کو ایک محفوظ اور پائیدار مستقبل کی جانب بھی لے جا سکتے ہیں۔