دنیا بھر میں جانوروں کے تحفظ پر زور دیا جاتا ہے، مگر کچھ صنعتیں ایسی ہیں جو اب بھی بے زبان مخلوق کو معاشی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایک چونکا دینے والا انکشاف سامنے آیا ہے کہ لاکھوں گدھوں کو صرف ان کی کھالوں کی خاطر ذبح کیا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ محض جانوروں کی بقا تک محدود نہیں بلکہ انسانی صحت، افریقی معاشرت اور عالمی معیشت تک اثر انداز ہو رہا ہے۔
برطانیہ کی ایک فلاحی تنظیم کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دنیا بھر میں تقریباً چھ ملین گدھے ذبح کیے گئے۔ ان کی کھالیں چین میں روایتی طب کے لیے استعمال ہونے والے مادے “ایجیاؤ” (Ejiao) کی تیاری میں استعمال ہو رہی ہیں۔ یہ مادہ گدھوں کی کھال سے حاصل ہونے والے کولیجن سے بنایا جاتا ہے اور اسے توانائی، خوبصورتی اور صحت کے لیے سپلیمنٹ کے طور پر بیچا جا رہا ہے۔
چین میں ایجیاؤ کی انڈسٹری تیزی سے پھل پھول رہی ہے جس کی موجودہ مالیت اندازاً 6.8 بلین ڈالر ہے۔ تاہم اس صنعت کی طلب نے چین کے اندر مقامی گدھوں کی آبادی کو شدید نقصان پہنچایا۔ اعداد و شمار کے مطابق 1992 میں وہاں ایک کروڑ دس لاکھ گدھے موجود تھے، لیکن 2023 تک یہ تعداد محض پندرہ لاکھ رہ گئی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے افریقہ کو نشانہ بنایا گیا جہاں گدھوں کی بڑی تعداد میں غیر قانونی تجارت شروع ہو گئی۔
Have you heard of ejiao?
Millions of donkeys are killed every year in the ejiao industry – where their skin is harvested and boiled down for Chinese “medicine” 😡#WorldDonkeyDay pic.twitter.com/DSl1aE8CPf
— PETA UK (@PETAUK) May 8, 2024
افریقی یونین نے صورتحال کی سنگینی دیکھتے ہوئے 2023 میں گدھوں کے ذبح پر 15 سالہ پابندی عائد کی، لیکن رپورٹ کے مطابق یہ تجارت بدستور جاری ہے۔ اکثر معاملات میں یہ غیر قانونی نیٹ ورکس رات کی تاریکی میں گدھوں کو چرا لیتے ہیں، انہیں غیر انسانی حالات میں ذبح کرتے ہیں اور کھالوں کو بین الاقوامی منڈی تک پہنچاتے ہیں۔ کئی بار یہ جانور ذبح خانوں تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔
یہ عمل نہ صرف جانوروں کے لیے اذیت ناک ہے بلکہ افریقی برادریوں کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ہے۔ دیہی خواتین اور بچے جو روزمرہ زندگی اور زراعت میں گدھوں پر انحصار کرتے ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ کھیتوں کی جوتائی، پانی اور سامان کی ترسیل میں گدھوں کے بغیر ان کی زندگی اجیرن ہو رہی ہے۔
ایجیاؤ صدیوں سے چین میں روایتی علاج کے طور پر استعمال ہوتا آ رہا ہے۔ پہلے یہ صرف مقامی سطح پر محدود پیمانے پر تیار ہوتا تھا، لیکن حالیہ دہائی میں جب چینی طب کو عالمی سطح پر فروغ ملا تو اس کی مانگ میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ مقامی گدھوں کی کمی کے باعث افریقہ اس کاروبار کے لیے مرکزی ہدف بن گیا۔
گدھے افریقہ کے دیہی نظام زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ وہ زراعت، پانی کی فراہمی اور روزمرہ نقل و حمل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ماضی میں بھی جب مویشیوں کی غیر قانونی اسمگلنگ میں اضافہ ہوا تو دیہی علاقوں کی معاشی سرگرمیاں شدید متاثر ہوئیں، لیکن موجودہ بحران کہیں زیادہ سنگین ثابت ہو رہا ہے۔
جانوروں کے حقوق کی تنظیموں نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ڈونکی سینکچوری نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو گدھوں کی نسل معدوم ہو سکتی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی یہ موضوع نمایاں ہے جہاں صارفین نے اس صنعت کو “ظالمانہ” اور “انسانیت سوز” قرار دیا ہے۔ کچھ افریقی سیاست دانوں نے اپنے عوام کے حق میں بیانات دیے اور حکومتوں پر زور دیا کہ وہ غیر قانونی تجارت کے خلاف سخت قوانین نافذ کریں۔
یہ مسئلہ محض جانوروں کے حقوق کا نہیں بلکہ ایک کثیرالجہتی بحران ہے۔ زرعی پیداوار کم ہونے سے خوراک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ خواتین اور بچوں کے روزمرہ کاموں میں مشکلات بڑھنے سے تعلیمی اور معاشرتی ڈھانچہ متاثر ہوگا۔
عالمی سطح پر یہ تجارت صحت عامہ کے خطرات بھی پیدا کر رہی ہے۔ غیر علاج شدہ کھالوں اور لاشوں کی غلط تلفی سے متعدی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے جو مقامی اور عالمی سطح پر وبائی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر رجحان اسی رفتار سے جاری رہا تو 2027 تک ہر سال تقریباً 6.8 ملین کھالوں کی ضرورت ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ گدھوں کی آبادی تیزی سے کم ہو گی اور افریقہ کے دیہی معاشرے معاشی طور پر تباہ ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب اگر عالمی برادری نے جانوروں کے حقوق کے تحفظ اور قانونی ضابطوں پر زور دیا تو ممکن ہے کہ یہ صنعت متبادل ذرائع تلاش کرے، مثلاً مصنوعی کولیجن یا بائیوٹیکنالوجی پر مبنی حل۔
گدھوں کی کھالوں کی غیر قانونی تجارت نے ایک ایسا بحران کھڑا کر دیا ہے جو محض جانوروں تک محدود نہیں بلکہ انسانی معاشرت، صحت اور معیشت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اگر فوری اور عالمی سطح پر اقدامات نہ کیے گئے تو افریقہ کی دیہی برادریاں اپنی روزمرہ زندگی اور معاشی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان اٹھائیں گی۔ یہ وقت ہے کہ دنیا اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور انسانیت کے ساتھ ساتھ بے زبان جانوروں کو بھی تحفظ فراہم کرے۔