بوئنگ اور کوریان ایئر معاہدہ دنیا کی فضائی صنعت میں ایک ایسا واقعہ ہے جس نے ماہرین اور مبصرین کو حیران کر دیا ہے۔ یہ صرف ایک تجارتی سودا نہیں بلکہ ایک عالمی سطح کا اعلان ہے جو مستقبل میں ایوی ایشن سیکٹر، بین الاقوامی تعلقات اور عالمی معیشت پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب فضائی کمپنیاں مسلسل دباؤ اور مسابقت کا شکار ہیں، یہ معاہدہ نہ صرف کاروباری وسعت کی نشانی ہے بلکہ اعتماد اور تعاون کی ایک نئی علامت بھی ہے۔
بوئنگ کو حالیہ برسوں میں کئی چیلنجز کا سامنا رہا ہے، تاہم یہ معاہدہ ایک نئی توانائی اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ بحال کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ کوریان ایئر کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں جدید طیاروں کا آرڈر دینا اس بات کی علامت ہے کہ فضائی صنعت اب بھی امریکی کمپنی پر اعتماد رکھتی ہے۔
رپورٹس کے مطابق کوریان ایئر نے بوئنگ کے ساتھ تقریباً 36 ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت کمپنی کو 103 نئے طیارے فراہم کیے جائیں گے۔ ان طیاروں میں بوئنگ کے مشہور 787 ڈریم لائنر، 777 طویل فاصلے کے طیارے اور 737 جدید مسافر جہاز شامل ہیں۔ یہ سودا اس وقت سامنے آیا ہے جب جنوبی کوریا اور امریکہ تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
BREAKING: Korean Air to Purchase a Record 103 Boeing Jetshttps://t.co/W7paaXLDbM#Boeing #KoreanAir #Breitflyte #avgeek #avgeeks #aviation #airlines pic.twitter.com/3npeaQaM2l
— Breitflyte Airline News Network (@breitflyte) August 25, 2025
اس معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسے موقع پر ہوا جب امریکی صدر کی جانب سے تجارتی شراکت داروں پر امریکی کمپنیوں کے ساتھ تعاون بڑھانے پر زور دیا جا رہا تھا۔ معاہدے کے اعلان کے دوران دونوں ممالک کے وزراء، بڑی ٹیکنالوجی اور آٹو انڈسٹری کے نمائندگان بھی شریک تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سودا صرف ایک کاروباری فیصلہ نہیں بلکہ ایک بڑی سفارتی کامیابی بھی ہے۔
بوئنگ کے مطابق یہ معاہدہ امریکہ میں تقریباً 1,35,000 ملازمتوں کو سہارا دے گا، جبکہ عالمی سطح پر بھی اس کے اثرات دیکھے جائیں گے۔ اس سے نہ صرف امریکی ایوی ایشن انڈسٹری کو تقویت ملے گی بلکہ جنوبی کوریا کی فضائی کمپنی کو بھی اپنے بیڑے کو جدید اور مسابقتی بنانے میں مدد ملے گی۔
بوئنگ اور کوریان ایئر کا تعلق کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ کوریان ایئر نے ہمیشہ امریکی کمپنی پر بھروسہ کیا ہے اور ماضی میں بھی درجنوں طیارے خریدے ہیں۔ تاہم یہ معاہدہ اپنی وسعت اور اہمیت کے اعتبار سے منفرد ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ ایشیا میں فضائی سفر کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چین، جاپان اور انڈونیشیا بھی حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر بوئنگ کے طیارے خرید چکے ہیں۔ اسی رجحان نے کوریان ایئر کو مجبور کیا کہ وہ اپنے بیڑے کو مزید جدید اور بڑی تعداد میں طیاروں کے ذریعے اپ گریڈ کرے۔
معاہدے کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف آراء سامنے آئیں۔ کئی صارفین نے اسے جنوبی کوریا کی اقتصادی طاقت کا مظہر قرار دیا، جبکہ کچھ نے بوئنگ پر ماضی کے حادثات کی وجہ سے تنقید بھی کی۔
ماہرین کے مطابق یہ معاہدہ نہ صرف فضائی صنعت بلکہ دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات کو بھی نئی سطح پر لے جائے گا۔ امریکی صنعتکاروں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس سے امریکی معیشت کو براہِ راست فائدہ پہنچے گا۔ دوسری جانب کورین عوام نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس کے نتیجے میں فضائی سفر مزید آرام دہ اور جدید ہوگا۔
یہ سودا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بڑی فضائی کمپنیاں اب بھی بوئنگ پر انحصار کر رہی ہیں، باوجود اس کے کہ کمپنی نے حالیہ برسوں میں متعدد حادثات اور تکنیکی مسائل کا سامنا کیا۔ اس معاہدے سے بوئنگ کو اپنے یورپی حریف ایئربس پر برتری حاصل کرنے کا موقع بھی ملے گا۔
اقتصادی اعتبار سے یہ سودا امریکہ کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس سے مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ جنوبی کوریا کے لیے بھی یہ معاہدہ اس کے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی اثرورسوخ کا مظہر ہے۔
ممکنہ طور پر اس معاہدے کے نتیجے میں دیگر ایشیائی ممالک بھی بوئنگ کی طرف مائل ہوں گے تاکہ وہ اپنی فضائی سروسز کو جدید خطوط پر استوار کر سکیں۔ یہ سودا مستقبل میں ایشیائی مارکیٹ کو بوئنگ کے لیے مزید کھولنے کا باعث بن سکتا ہے۔
ساتھ ہی، یہ امکان بھی ہے کہ اس معاہدے کے بعد یورپی کمپنی ایئربس نئی حکمت عملی اختیار کرے تاکہ مسابقتی میدان میں اپنی جگہ مضبوط رکھ سکے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر فضائی سفر مزید جدید اور محفوظ بنانے کی دوڑ میں تیزی آئے گی۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ بوئنگ اور کوریان ایئر معاہدہ محض ایک تجارتی سودا نہیں بلکہ عالمی سیاست، معیشت اور فضائی صنعت کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس سے نہ صرف امریکہ اور جنوبی کوریا کے تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ عالمی ایوی ایشن انڈسٹری میں بھی نئی تبدیلیوں کی بنیاد پڑے گی۔
یہ سودا اس بات کی علامت ہے کہ اگرچہ چیلنجز بڑے ہیں، مگر تعاون اور اعتماد کے ذریعے ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ آنے والے برسوں میں اس کے اثرات عالمی فضائی سفر کے نقشے کو ازسرِنو ترتیب دینے میں نمایاں کردار ادا کریں گے۔