ایلون مسک اپنی متنازعہ اور جرات مندانہ فیصلوں کی وجہ سے ہمیشہ خبروں میں رہتے ہیں۔ چاہے وہ اسپیس ایکس کے ذریعے خلا کی تسخیر ہو، ٹیسلا کی برقی گاڑیاں ہوں یا مصنوعی ذہانت کا میدان—مسک کی سوچ ہمیشہ مستقبل کی سمت اشارہ کرتی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے ایک اور بڑا قدم اٹھایا ہے جس نے عالمی ٹیکنالوجی انڈسٹری میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس بار معاملہ براہِ راست دنیا کی دو بڑی کمپنیوں ایپل اور اوپن اے آئی کے خلاف ایک مقدمے کا ہے، جسے مسک نے اپنی کمپنیوں ایکس (X) اور ایکس اے آئی (xAI) کے ذریعے دائر کیا ہے۔
یہ مقدمہ صرف ایک کاروباری جھگڑا نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں برتری حاصل کرنے کی بڑی جنگ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف ٹیکنالوجی کے مستقبل بلکہ دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں کے تعلقات پر بھی گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔
ایلون مسک کی کمپنیوں ایکس اور ایکس اے آئی نے امریکہ کی ریاست ٹیکساس کی ایک وفاقی عدالت میں ایپل اور اوپن اے آئی کے خلاف اینٹی ٹرسٹ مقدمہ دائر کیا ہے۔ ان کمپنیوں کا مؤقف ہے کہ ایپل نے اپنے آئی فون کے آپریٹنگ سسٹم میں اوپن اے آئی کا چیٹ بوٹ براہِ راست ضم کر کے ایک ایسا معاہدہ کیا، جس نے دیگر مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس کے لیے مارکیٹ میں جگہ بنانا مشکل بنا دیا۔
مقدمے کے مطابق، یہ معاہدہ 2024 میں کیا گیا تھا، جس کے تحت اوپن اے آئی کو لاکھوں ایپل صارفین کی روزمرہ سرگرمیوں اور پرامپٹس تک رسائی حاصل ہوئی۔ اس خصوصی رسائی نے اوپن اے آئی کو مارکیٹ میں نمایاں برتری فراہم کی، اور نتیجہ یہ نکلا کہ ChatGPT ایپ کی ڈاؤن لوڈنگ دیگر چیٹ بوٹس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بڑھ گئی۔
Elon Musk on Monday targeted Apple and OpenAI in an antitrust lawsuit alleging that the iPhone maker and the ChatGPT maker are teaming up to thwart competition in artificial intelligence. https://t.co/Bdh2B2EgaV pic.twitter.com/iAGLQGkKV2
— Fortune 500 (@Fortune500) August 26, 2025
ایلون مسک کی کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام نے نہ صرف مارکیٹ میں منصفانہ مقابلے کو متاثر کیا بلکہ نئی ٹیکنالوجیز کی جدت کو بھی روکا۔ ان کے مطابق، ایپل اور اوپن اے آئی نے ایک ایسا اتحاد بنایا جو مصنوعی ذہانت کے شعبے میں اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایلون مسک اور اوپن اے آئی کے موجودہ سی ای او سیم آلٹمین نے 2015 میں مل کر اوپن اے آئی کی بنیاد رکھی تھی، مگر وقت کے ساتھ ان کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ مسک کا مؤقف ہے کہ آلٹمین نے اوپن اے آئی کو عوامی مفاد کی تحقیق سے ہٹا کر تجارتی منافع کی طرف موڑ دیا۔ اسی وجہ سے مسک نے اپنی کمپنی xAI اور اس کا چیٹ بوٹ “گروک (Grok)” متعارف کروایا تاکہ اوپن اے آئی کا متبادل فراہم کیا جا سکے۔
ادھر اوپن اے آئی کے ترجمان نے اس مقدمے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ “مسٹر مسک کی جانب سے جاری ہراسانی کا حصہ” ہے، جبکہ ایپل نے فوری طور پر کسی تبصرے سے گریز کیا۔ تاہم، یہ پہلا موقع نہیں کہ ایپل کے ایپ اسٹور کے طریقہ کار پر سوالات اٹھے ہوں۔ اس سے قبل بھی گوگل کے خلاف ایک بڑے اینٹی ٹرسٹ کیس کے بعد ایپل پر شفافیت کے حوالے سے دباؤ بڑھا تھا۔
ایپل اور اوپن اے آئی کے درمیان تعاون کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی۔ ایپل، جو ہمیشہ اپنی ڈیوائسز کو منفرد بنانے کی کوشش کرتا ہے، نے ChatGPT کو آئی فون کے آپریٹنگ سسٹم میں ضم کر کے اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرنے کی کوشش کی۔
تاہم، یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایلون مسک اور اوپن اے آئی کی کہانی ایک ساتھ شروع ہوئی تھی۔ 2015 میں جب یہ ادارہ وجود میں آیا تو اس کا مقصد تھا “مصنوعی ذہانت کو عوامی فائدے کے لیے استعمال کرنا”۔ لیکن مسک کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ اوپن اے آئی نے اس مقصد کو ترک کر کے کاروباری مفاد کو ترجیح دینا شروع کر دی۔ یہی اختلاف بعد میں بڑے تنازع میں بدل گیا۔
سوشل میڈیا پر اس مقدمے کی خبر آتے ہی دنیا بھر میں بحث چھڑ گئی۔ مسک کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بروقت ایک قدم اٹھایا ہے تاکہ مصنوعی ذہانت پر چند بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری نہ قائم ہو۔ ٹیکنالوجی ماہرین بھی مانتے ہیں کہ اگر اوپن اے آئی کو ایپل جیسی کمپنی کی خصوصی سپورٹ ملتی ہے تو دیگر حریفوں کے لیے مارکیٹ میں جگہ بنانا مشکل ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب، کچھ افراد کا خیال ہے کہ ایلون مسک کی یہ کارروائی زیادہ تر کاروباری مقابلے کا نتیجہ ہے۔ ان کے نزدیک، مسک اپنی کمپنی xAI اور چیٹ بوٹ گروک کو آگے بڑھانے کے لیے یہ قانونی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔
یہ مقدمہ دراصل مصنوعی ذہانت کی عالمی دوڑ کا حصہ ہے۔ اگر عدالت ایلون مسک کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو یہ ایپل اور اوپن اے آئی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا اور ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں مزید کھلا مقابلہ دیکھنے کو ملے۔ اس کے برعکس، اگر عدالت نے مقدمہ مسترد کر دیا تو مسک کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے اور اوپن اے آئی مزید طاقتور ہو کر ابھر سکتا ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنازعہ صرف کمپنیوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کی سرمایہ کاری اور جدت پر بھی اثر ڈالے گا۔ چونکہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی سب سے بڑی صنعت سمجھی جا رہی ہے، اس لیے اس کی قانونی اور اخلاقی بنیادیں انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔
اگر یہ مقدمہ آگے بڑھتا ہے تو امکان ہے کہ امریکہ میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف مزید اینٹی ٹرسٹ تحقیقات شروع ہوں گی۔ اس سے ایپل، گوگل، اور دیگر بڑی کمپنیوں پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ اپنی پالیسیاں زیادہ شفاف اور منصفانہ بنائیں۔
دوسری طرف، ایلون مسک کی کمپنی xAI کے لیے یہ مقدمہ ایک موقع بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر عدالت ان کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو گروک جیسے نئے چیٹ بوٹس کے لیے مارکیٹ میں جگہ بنانا آسان ہو جائے گا۔
ایلون مسک کا ایپل اور اوپن اے آئی کے خلاف قانونی اقدام محض ایک مقدمہ نہیں بلکہ مستقبل کی ٹیکنالوجی کی سمت کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ مقدمہ ظاہر کرتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا میدان اب صرف تحقیق یا ترقی تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ عالمی سطح پر طاقت، سیاست اور معیشت کا حصہ بن چکا ہے۔