امریکہ کی ٹیکنالوجی انڈسٹری اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ سیمی کنڈکٹرز، جو جدید الیکٹرانکس اور مصنوعی ذہانت (AI) کے دل سمجھے جاتے ہیں، اب عالمی معیشت اور سلامتی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ایسے میں امریکی حکومت کا دنیا کی سب سے بڑی چِپ ساز کمپنیوں میں سے ایک، انٹیل (Intel) میں سرمایہ کاری کا اعلان غیر معمولی مگر فیصلہ کن قدم سمجھا جا رہا ہے۔
یہ اعلان نہ صرف امریکی معیشت کو نئی سمت دے سکتا ہے بلکہ اس سے عالمی ٹیکنالوجی کی سیاست بھی تبدیل ہونے کا امکان ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر حکومت نے یہ غیر روایتی قدم کیوں اٹھایا اور اس کے اثرات مستقبل میں کیا ہوں گے؟
امریکی وزیرِ تجارت ہاورڈ لٹ نِک نے جمعے کو اعلان کیا کہ وفاقی حکومت انٹیل میں 10 فیصد حصص خرید رہی ہے۔ اس سودے کی مالیت تقریباً 8.9 ارب ڈالر ہے اور یہ سرمایہ اُن فنڈز سے فراہم کیا جائے گا جو پہلے ہی انٹیل کو CHIPS اینڈ سائنس ایکٹ کے تحت دیے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے اس معاہدے کو “تاریخی فیصلہ” قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام امریکہ کی ٹیکنالوجی میں قیادت کو دوبارہ دنیا کے سامنے لائے گا۔ اعلان کے فوراً بعد اسٹاک مارکیٹ میں مثبت ردعمل دیکھنے کو ملا اور انٹیل کے شیئرز کی قیمت میں پانچ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔
INTEL HAS AGREED TO GIVE U.S. A 10% STAKE IN ITS BUSINESS
This is exactly what’s going to come for all the private AI companies robbing citizens of their data and livelihood unless they right the grand bargain
Go public. Give retail a fighting chance. https://t.co/SSlW9269sf
— Jeff Park (@dgt10011) August 22, 2025
انٹیل کے سی ای او لپ-بو تان نے اس موقع پر کہا کہ چونکہ انٹیل واحد امریکی کمپنی ہے جو جدید ترین چِپس کی ریسرچ اور مینوفیکچرنگ دونوں کرتی ہے، اس لیے یہ سرمایہ کاری کمپنی کو اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے میں مدد دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سرمایہ کاری نہ صرف معیشت بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انٹیل اپنی حریف کمپنی این ویڈیا (Nvidia) سے کافی پیچھے رہ گئی ہے۔ این ویڈیا اس وقت مصنوعی ذہانت کے چِپس کی عالمی مارکیٹ پر راج کر رہی ہے اور اس کی ویلیو چار ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ انٹیل تقریباً 100 ارب ڈالر پر اٹکی ہوئی ہے۔ انٹیل نہ موبائل ٹیکنالوجی کے انقلاب میں آگے بڑھ سکی اور نہ ہی AI کی دوڑ میں اپنی پوزیشن مستحکم کر پائی۔
امریکہ میں سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کو ہمیشہ سے اسٹریٹجک حیثیت حاصل رہی ہے۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں انٹیل نے عالمی سطح پر چِپ کی مارکیٹ پر غلبہ حاصل کیا تھا، لیکن بعد میں ایشیائی کمپنیوں اور نئی ٹیکنالوجیز نے اس کی پوزیشن کمزور کر دی۔
اسی دوران امریکہ کو اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کی زیادہ تر چِپ سپلائی چین ایشیائی ممالک پر انحصار کرتی ہے۔ خاص طور پر تائیوان کی کمپنی TSMC اور جنوبی کوریا کی سام سنگ نے عالمی منڈی پر اجارہ داری قائم کر لی۔ یوکرین جنگ اور امریکہ-چین کشیدگی کے بعد یہ احساس مزید بڑھ گیا کہ قومی سلامتی کے لیے سیمی کنڈکٹرز کی مقامی پیداوار ضروری ہے۔
اس فیصلے پر مختلف حلقوں میں ملے جلے ردعمل دیکھنے کو ملے۔ ایک طرف کاروباری اور صنعتی حلقوں نے اسے خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ حکومت کے براہِ راست کردار سے انٹیل کو نئی زندگی ملے گی۔ دوسری جانب کچھ ماہرین نے خبردار کیا کہ حکومت اور نجی کمپنی کے درمیان ایسے تعلقات مارکیٹ کی شفافیت پر سوال اٹھا سکتے ہیں۔
سیاسی سطح پر بھی یہ فیصلہ متنازع رہا۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتے پہلے ہی انٹیل کے سی ای او پر چین سے مبینہ تعلقات کے الزامات لگائے تھے، جس پر انہیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اب انہی سی ای او کے ساتھ معاہدہ طے ہونے پر کئی سینیٹرز اور اپوزیشن رہنماؤں نے سوال اٹھائے کہ آیا یہ فیصلہ صرف قومی مفاد پر مبنی ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور عوامل ہیں۔
امریکی حکومت کا انٹیل میں حصہ خریدنے کا فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ واشنگٹن اپنی صنعتی پالیسی کو نئے انداز میں تشکیل دے رہا ہے۔ یہ حکمتِ عملی صرف معاشی نہیں بلکہ جغرافیائی سیاست سے جڑی ہوئی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ چین کے بڑھتے اثرات کو محدود کرے اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اپنی برتری بحال کرے۔
یہ فیصلہ سرمایہ کاروں کے لیے بھی پیغام ہے کہ حکومت سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کو ہر قیمت پر سپورٹ کرے گی۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا محض سرمایہ کاری سے انٹیل این ویڈیا جیسے جدید پلیئرز کا مقابلہ کر پائے گی؟ یا پھر اسے اپنی حکمتِ عملی میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ حکومتی سرمایہ کاری مؤثر ثابت ہوئی تو انٹیل دوبارہ عالمی ٹیک انڈسٹری میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔ امریکہ میں چِپ فیکٹریوں کے قیام سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور سپلائی چین میں خود کفالت بڑھے گی۔
تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ماڈل مزید کمپنیوں پر بھی آزمایا جائے، جیسا کہ حال ہی میں ریئر ارتھ میٹلز کے شعبے میں دیکھا گیا۔ اگر امریکہ اس ماڈل کو مستقل حکمتِ عملی کے طور پر اپناتا ہے تو نجی کمپنیوں کے ساتھ حکومت کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو جائیں گے۔
امریکی حکومت کا انٹیل میں سرمایہ کاری کا فیصلہ بظاہر ایک معاشی قدم ہے لیکن اس کے اثرات کہیں زیادہ وسیع ہیں۔ یہ صرف ایک کمپنی کی بحالی کا معاملہ نہیں بلکہ اس کے ذریعے امریکہ اپنی ٹیکنالوجی اور قومی سلامتی کی پالیسی کو نئی شکل دے رہا ہے۔ آنے والے برسوں میں یہ معاہدہ اس بات کا امتحان ہوگا کہ کیا حکومت کا براہِ راست کردار واقعی امریکہ کو سیمی کنڈکٹر کی دوڑ میں واپس لا سکتا ہے یا نہیں۔