جوناتھن ایڈورڈز، ایک ایسا نام جو ایتھلیٹکس کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جا چکا ہے۔ اُن کا 1995 میں لگایا گیا ٹرپل جمپ آج بھی دنیا بھر کے کھلاڑیوں کے لیے ایک خواب بنا ہوا ہے۔ کھیلوں میں عام تاثر ہے کہ ہر ریکارڈ وقت کے ساتھ ٹوٹ جاتا ہے، مگر ایڈورڈز کا ریکارڈ تین دہائیوں بعد بھی قائم ہے، جو نہ صرف اُن کی غیر معمولی صلاحیت کا ثبوت ہے بلکہ ایتھلیٹکس کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔
7 اگست 1995 کو سویڈن کے شہر گوتن برگ میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ جاری تھی۔ اسٹیڈیم شائقین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، مگر کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک ایسا تاریخی لمحہ دیکھنے والے ہیں جو آنے والے کئی عشروں تک یاد رکھا جائے گا۔
جب برطانوی کھلاڑی جوناتھن ایڈورڈز نے اپنی پہلی باری میں 18.16 میٹر کا جمپ لگایا تو پورا میدان حیران رہ گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب 18 میٹر کی حد کسی نے قانونی حالات میں عبور نہیں کی تھی۔ مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ دوسری باری میں ایڈورڈز نے ایک ایسا جمپ لگایا جس نے ایتھلیٹکس کی دنیا بدل دی — 18.29 میٹر۔ یہ فاصلہ آج بھی ٹرپل جمپ کی حدوں کو چیلنج کرتا ہے۔
ایڈورڈز کی تکنیک منفرد تھی۔ انہوں نے اپنی باڈی ویٹ، رفتار اور توازن کو اس انداز سے استعمال کیا کہ اُن کا جسم جیسے ہوا میں تیرتا دکھائی دیتا۔ ان کے وزن کی ہلکی ساخت (تقریباً 71 کلوگرام) اور رفتار نے اُنہیں باقی سب سے مختلف بنا دیا۔ 1995 میں انہوں نے اپنی جمپ تکنیک میں ایک بڑی تبدیلی متعارف کرائی — ڈبل آرم ایکشن۔ یہ تبدیلی ہی اُن کے لیے جادوئی ثابت ہوئی۔
30 years ago today, Jonathan Edwards 🇬🇧 set a World Record of 18.29m in the Triple Jump!
It remains unbroken till today.pic.twitter.com/E2rAKv7jcK
— Track & Field Gazette (@TrackGazette) August 7, 2025
کھیل کے اُس دور کے دیگر جمپرز جیسے جروم رومان اور برائن ویل مین خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایڈورڈز کی کارکردگی انسانی حدوں سے باہر محسوس ہوتی تھی۔ ان کے مطابق، ایڈورڈز نے جمپنگ کے تصور کو ہی بدل کر رکھ دیا۔
یہ ریکارڈ آج بھی برقرار ہے۔ 2015 میں امریکی ایتھلیٹ کرسچن ٹیلر نے 18.21 میٹر کے ساتھ سب سے قریب پہنچنے کی کوشش کی مگر وہ 8 سینٹی میٹر پیچھے رہ گئے۔ موجودہ دور میں بھی دنیا کے بہترین جمپرز 17.90 میٹر سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
ایتھلیٹکس میں ٹرپل جمپ کو ہمیشہ ایک مشکل ایونٹ مانا گیا ہے۔ اس میں کھلاڑی کو رفتار، طاقت، اور توازن تینوں کا کامل امتزاج دکھانا ہوتا ہے۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں اس کھیل نے کئی نامور چیمپئنز دیکھے، مگر ایڈورڈز نے جو معیار قائم کیا، وہ کسی کے لیے قابلِ رسائی نہیں رہا۔
جوناتھن ایڈورڈز کا سفر آسان نہیں تھا۔ وہ کئی بار چوٹوں اور ناکامیوں سے دوچار ہوئے، مگر ان کی مستقل مزاجی اور خود پر یقین نے اُنہیں دنیا کا بہترین ٹرپل جمپر بنا دیا۔ ان کے کوچ کے مطابق، “ایڈورڈز کا سب سے بڑا ہتھیار اُن کا ذہنی استحکام تھا۔ وہ دباؤ میں بھی ہمیشہ پرسکون رہتے۔”
اُس وقت ایتھلیٹکس کے مقابلے دیگر کھیلوں کی طرح مالی طور پر مضبوط نہیں تھے۔ کھلاڑی اکثر وسائل کی کمی کا سامنا کرتے تھے، مگر ایڈورڈز نے صرف جذبے کے بل پر تاریخ رقم کی۔
ایڈورڈز کے ریکارڈ کے بعد دنیا بھر کے کھلاڑیوں اور ماہرین نے انہیں “ایتھلیٹکس کے جادوگر” کے لقب سے نوازا۔ برطانوی میڈیا نے اُنہیں “The Miracle Jumper” کہا جبکہ شائقین نے انہیں تاریخ کا سب سے مکمل ٹرپل جمپر قرار دیا۔
سوشل میڈیا پر آج بھی اُن کے جمپ کی ویڈیوز کو لاکھوں لوگ دیکھتے اور حیران ہوتے ہیں کہ انسانی جسم اس قدر رفتار اور توازن کیسے برقرار رکھ سکتا ہے۔ کھیلوں کے تبصرہ نگاروں کے مطابق، ایڈورڈز کا جمپ صرف ایک ریکارڈ نہیں بلکہ “انسانی جسمانی مہارت کی انتہا” تھا۔
ایڈورڈز کے ریکارڈ نے ایتھلیٹکس میں ایک نئی بحث چھیڑ دی — کیا موجودہ دور کے کھلاڑی کبھی یہ حد عبور کر سکیں گے؟
ماہرین کا ماننا ہے کہ آج کے ایتھلیٹس کے پاس جدید جوتے، سائنسی تربیت، اور ٹیکنالوجی موجود ہے، لیکن ایڈورڈز کے ریکارڈ تک پہنچنا اب بھی خواب ہے۔ ان کے مطابق، کاربن فائبر والے جوتے دوڑ میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں مگر جمپنگ ایونٹس میں ان کا اثر بہت محدود ہے۔
دوسری جانب ایتھلیٹکس کے ماہرین اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ کھیل کا معاشی ڈھانچہ کمزور ہونے کی وجہ سے نئے ٹیلنٹ سامنے نہیں آ رہے۔ نوجوان کھلاڑی ایسے کھیلوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں مالی فائدہ زیادہ ہے، جیسے فٹبال، کرکٹ یا ٹینس۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرپل جمپ جیسے ایونٹس میں عالمی معیار کے نئے چیمپئنز کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔
اگر ایتھلیٹکس فیڈریشنز نے فیلڈ ایونٹس پر توجہ نہ دی تو ممکن ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ کھیل اپنی چمک کھو بیٹھے۔ ایڈورڈز کا ریکارڈ آج بھی قائم ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی نوجوان ایتھلیٹ اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی ہمت کرے گا؟
ٹیکنالوجی، کوچنگ اور ٹریننگ کے نئے طریقے ضرور بہتری لا سکتے ہیں، مگر کھیل کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایڈورڈز جیسے ذہنی مضبوطی اور تکنیکی نکتہ نظر کے بغیر اس ریکارڈ کو توڑنا تقریباً ناممکن ہے۔
ممکن ہے مستقبل میں کوئی نیا سپر ایتھلیٹ ابھرے جو 18.30 میٹر کی دیوار گرا دے، لیکن فی الحال ایسا لگتا ہے کہ یہ ریکارڈ مزید کئی سال برقرار رہے گا — جیسے یہ انسان کی صلاحیتوں کی ایک حد کی نشاندہی کرتا ہو۔
جوناتھن ایڈورڈز کا 1995 کا ٹرپل جمپ صرف ایک ریکارڈ نہیں بلکہ انسانی عزم، مہارت اور ہمت کی ایک زندہ مثال ہے۔ اُنہوں نے دنیا کو دکھایا کہ کھیل میں محض طاقت نہیں بلکہ ذہانت اور تکنیک بھی کامیابی کی کنجی ہیں۔
آج، تین دہائیاں گزرنے کے باوجود، یہ جمپ ایتھلیٹکس کی تاریخ کا سب سے یادگار لمحہ ہے۔ اگر کبھی یہ ریکارڈ ٹوٹ بھی جائے، تب بھی ایڈورڈز کا نام ہمیشہ اس کھیل کی روح کے طور پر زندہ رہے گا۔