چکنگنیا وائرس نے چین کے جنوبی صوبے گوانگ ڈونگ میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ یہ بیماری، جو مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے، چند ہی ہفتوں میں ہزاروں لوگوں کو متاثر کر چکی ہے۔ اگرچہ چینی حکام کا کہنا ہے کہ زیادہ تر کیسز ہلکے ہیں، مگر عوام میں خوف و ہراس بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ اس بیماری کی علامات شدید اور طویل عرصے تک رہ سکتی ہیں۔
چین، جو ماضی میں کووڈ-19 جیسی وباؤں سے گزر چکا ہے، ایک بار پھر طبی دباؤ اور عوامی بےچینی کی کیفیت سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔
جولائی سے اب تک چکنگنیا وائرس کے سات ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، جن میں سب سے زیادہ متاثرہ شہر فوشان (Foshan) بتایا جا رہا ہے۔ وہاں مقامی اسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں اور ہر مریض کو لازمی طور پر اسپتال میں داخل کیا جا رہا ہے۔ ہر بستر پر مچھر دانی لگائی گئی ہے تاکہ مزید انفیکشن نہ پھیلے۔
حکام کے مطابق، کسی مریض کو اسپتال سے تبھی ڈسچارج کیا جاتا ہے جب اس کا ٹیسٹ منفی آ جائے یا وہ کم از کم ایک ہفتہ مکمل کر لے۔ یہ پالیسی کچھ لوگوں کو کووڈ کے دنوں کی یاد دلا رہی ہے جب سخت قرنطینہ نافذ کیا گیا تھا۔
🇨🇳 China revives COVID-era healthcare measures to prevent the spread of the new virus
In Guangdong province, with a population of 126 million people, locals are once again wearing masks, as in COVID times, the authorities have introduced sanitary measures and restrictions. The… pic.twitter.com/0EmrREGxdq
— Visegrád 24 (@visegrad24) August 6, 2025
چکنگنیا کی عام علامات میں تیز بخار، جوڑوں کا شدید درد، خارش، سر درد، پٹھوں میں کھنچاؤ اور جسمانی سوجن شامل ہیں۔ اگرچہ اموات کے امکانات بہت کم ہیں، مگر بیماری کے بعد رہ جانے والا جوڑوں کا درد مہینوں یا سالوں تک انسان کو تکلیف دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اس بیماری کو “نہ ختم ہونے والی تھکن” کے نام سے بھی پکارنے لگے ہیں۔
فوشان کے علاوہ، گوانگ ڈونگ کے کم از کم 12 دیگر شہروں میں بھی کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ صرف ایک ہفتے میں تین ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے — جو صورتحال کی سنگینی ظاہر کرتا ہے۔
سب سے زیادہ تشویش اس وقت ہوئی جب ہانگ کانگ میں ایک 12 سالہ بچے میں چکنگنیا کی تشخیص ہوئی۔ وہ حال ہی میں فوشان سے واپس آیا تھا۔ اس واقعے نے چینی سرحدوں کے باہر بھی خدشات کو جنم دیا اور عالمی ادارہ صحت نے مقامی حکومتوں کو احتیاطی تدابیر پر زور دیا۔
چکنگنیا وائرس پہلی بار 1952 میں تنزانیہ میں دریافت ہوا تھا۔ اس کے بعد یہ افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں پھیلتا گیا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں یہ وائرس 110 سے زائد ممالک میں رپورٹ ہو چکا ہے۔
پاکستان، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بھی اس کے کیسز وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں۔
یہ وائرس بنیادی طور پر Aedes aegypti اور Aedes albopictus نامی مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے — وہی مچھر جو ڈینگی وائرس کے بھی ذمہ دار ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، بارشوں کا غیر متوقع نظام اور شہری علاقوں میں پانی کے ذخائر میں اضافہ اس وائرس کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
چین میں یہ پہلی بار اتنی بڑی سطح پر رپورٹ ہوا ہے، جس کی وجہ جزوی طور پر آبادی کا حجم اور شہری علاقوں میں مچھر کی افزائش ہے۔
چین میں عوامی ردعمل مکسڈ نظر آ رہا ہے۔ کئی لوگ حکومتی اقدامات کی حمایت کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں وبا کو قابو کرنے کے لیے سختی ضروری ہے۔
لیکن کچھ افراد کا کہنا ہے کہ قرنطینہ اور سخت نگرانی جیسے اقدامات کووڈ-19 کے دور کی یادیں تازہ کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو (Weibo) پر ایک صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا:
“یہ سب کچھ بہت مانوس لگ رہا ہے… کیا واقعی یہ اقدامات ضروری ہیں؟”
ایک اور صارف نے کہا:
“مریض تو مچھر نہیں، وہ دوسروں کو کاٹنے نہیں جائیں گے، پھر قرنطینہ کیوں؟”
عالمی سطح پر بھی اس وائرس پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ امریکی حکومت نے اپنے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ چین کا سفر کرتے وقت احتیاط کریں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی واضح کیا ہے کہ وائرس کی روک تھام کے لیے سب سے اہم اقدام مچھر کی افزائش گاہوں کو ختم کرنا ہے۔
چینی حکام نے اس وبا پر قابو پانے کے لیے کئی منفرد اور غیر روایتی اقدامات کیے ہیں۔
مثلاً، “ہاتھی مچھر” (Elephant Mosquitoes) کے نام سے جانے والے بڑے مچھر چھوڑے گئے ہیں جو خطرناک مچھروں کے انڈے اور لاروا کھا جاتے ہیں۔
اسی طرح جھیلوں اور تالابوں میں ہزاروں مچھلیاں چھوڑی گئی ہیں تاکہ وہ مچھر کے لاروا کو ختم کریں۔
کئی علاقوں میں ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ مقامات شناخت کیے جا رہے ہیں جہاں پانی جمع ہے۔
حکومت نے گھروں، دفاتر اور عوامی مقامات پر موجود پانی کے ذخائر ختم کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔
اگر کسی نے پھولوں کے گملوں، بوتلوں یا ٹبوں میں پانی کھڑا رکھا تو اس پر 10 ہزار یوان (تقریباً 1400 ڈالر) تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
یہ تمام اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ چین نے ماضی کی وباؤں سے سبق سیکھ لیا ہے اور اب وہ مچھر سے پھیلنے والی بیماریوں کے خلاف ایک منظم حکمت عملی اپنا رہا ہے۔
چکنگنیا وائرس کا پھیلاؤ چین کے لیے ایک نیا امتحان ہے، مگر اس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
اگر وائرس پر فوری قابو نہ پایا گیا تو یہ تجارتی سرگرمیوں، سفری روابط، اور سیاحتی شعبے پر اثر ڈال سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، آئندہ برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مچھر سے پھیلنے والی بیماریاں مزید علاقوں میں پھیل سکتی ہیں۔
چین اگر اس وقت مؤثر کنٹرول برقرار رکھتا ہے تو یہ دوسرے ممالک کے لیے بھی ایک کامیاب ماڈل بن سکتا ہے۔
امکان ہے کہ چینی حکومت آئندہ مہینوں میں ویکسین یا مخصوص علاج کے لیے تحقیقی اداروں کے ساتھ مل کر نئی مہمات کا آغاز کرے۔
چکنگنیا وائرس کی موجودہ لہر چین کے لیے ایک چیلنج ضرور ہے، مگر یہ بحران اس حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ تیز اقدامات اور عوامی تعاون سے وباؤں کا مقابلہ ممکن ہے۔
یہ بیماری اگرچہ جان لیوا نہیں، مگر اس کے اثرات طویل مدتی ہو سکتے ہیں۔
لہٰذا ماہرین کا مشورہ ہے کہ عوام نہ صرف حفاظتی تدابیر اختیار کریں بلکہ پانی کے ذخائر، کھلے ڈبے اور نالوں کو صاف رکھنے کو معمول بنائیں۔
چینی عوام کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ وبا کے خلاف ایک بار پھر اتحاد کا مظاہرہ کریں — جیسے انہوں نے ماضی میں کیا تھا۔
اگر اجتماعی شعور بیدار رہا تو شاید چکنگنیا وائرس چین میں اتنی تیزی سے نہ پھیل سکے جتنی تیزی سے خوف پھیل رہا ہے۔