خواتین کے تحفظ کا موضوع ہمیشہ سے عالمی سطح پر حساس اور اہم رہا ہے، مگر حال ہی میں ایک افسوسناک واقعہ نے یہ سوال دوبارہ زندہ کر دیا ہے کہ کیا موجودہ قوانین خواتین کو حقیقی معنوں میں تحفظ فراہم کر رہے ہیں؟
ایک برطانوی خاتون، جو افریقہ سے واپسی پر ایک غیر ملکی ایئرلائن کی پرواز میں سفر کر رہی تھیں، ان کے ساتھ دورانِ پرواز جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ مجرم کو سزا تو ملی، مگر متاثرہ خاتون اب ایک نئے صدمے سے گزر رہی ہیں — انہیں قانونی معاوضہ دینے سے انکار کر دیا گیا۔
یہ کہانی صرف ایک فرد کی نہیں، بلکہ ایک ایسے قانونی نظام کی خامی کی ہے جو انصاف کے تصور پر سوال اٹھا رہا ہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں 24 سالہ برطانوی خاتون ایک طویل کاروباری دورے کے بعد قطر سے لندن گیٹ وک جانے والی پرواز میں سوار ہوئیں۔ پرواز رات کی تھی اور بیشتر مسافر آرام کی حالت میں تھے۔ خاتون نے بھی معمول کے مطابق کمبل اوڑھ کر نیند لینے کی کوشش کی۔
I lost everything after the rape & assault.
4 years later, I have to testify AGAIN to try to get the already ordered small settlement awarded to me. 🤯 The system is broken. He’s out of jail & gainfully employed. I’m still picking up the pieces while battling #PTSD.#MeToo pic.twitter.com/MzTUPppSS0— Magnolia☝️✝️🙌 (@magnolia3169) October 8, 2020
لیکن لینڈنگ سے تقریباً دو گھنٹے قبل، ان کی آنکھ ایک خوفناک حقیقت کے ساتھ کھلی — ان کے ساتھ بیٹھے عمر رسیدہ شخص نے ان پر جنسی حملہ کر دیا تھا۔ متاثرہ خاتون نے فوراً شور مچایا اور عملے کو اطلاع دی۔ کیبن کریو نے فوراً کارروائی کرتے ہوئے خاتون کو دوسری نشست پر منتقل کر دیا اور لینڈنگ کے بعد ملزم کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
عدالت میں مقدمہ چلا، شواہد پیش ہوئے اور بالآخر 66 سالہ مجرم کو قصور وار قرار دیتے ہوئے ساڑھے چھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ فیصلہ متاثرہ کے لیے وقتی سکون کا باعث ضرور بنا، مگر انصاف کا عمل یہاں ختم نہیں ہوا۔
چند ماہ بعد جب خاتون نے حکومت کے “Criminal Injuries Compensation Scheme” کے تحت معاوضے کے لیے درخواست دی تو اسے مسترد کر دیا گیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ جرم “برطانوی رجسٹرڈ پرواز” پر نہیں ہوا۔ چونکہ وہ پرواز قطر کی ایئرلائن کی تھی، اس لیے برطانوی قانون کے مطابق وہ معاوضے کی اہل نہیں تھیں۔
یہ فیصلہ اس وقت حیران کن ثابت ہوا جب معلوم ہوا کہ 1996 میں برطانوی قانون میں ترمیم کے بعد غیر ملکی پروازوں پر ہونے والے جرائم بھی برطانیہ میں قابلِ سماعت قرار دیے گئے تھے۔ لیکن معاوضے کے قوانین میں یہ تبدیلی شامل نہیں کی گئی — جس سے انصاف کا دروازہ بند ہوتا دکھائی دیا۔
برطانیہ میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے متعدد قوانین موجود ہیں۔ “Sexual Offences Act 2003” اور “Victims’ Rights Law” جیسے ضوابط خواتین کو ہراسانی، تشدد اور زیادتی سے بچانے کے لیے بنائے گئے۔
تاہم، ہوا بازی سے متعلق جرائم کے قوانین اب بھی پرانے دور کے مطابق ہیں۔ “Civil Aviation Act 1982” میں غیر ملکی طیاروں کے اندر ہونے والے واقعات کے حوالے سے واضح الفاظ میں ذکر نہیں تھا۔ بعد میں 1996 میں ترمیم کی گئی، مگر معاوضے کے نظام میں وہ تبدیلی شامل نہیں کی گئی۔
یہ خلا آج بھی متاثرین کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ہی نوعیت کے جرم کے لیے دو مختلف قوانین کا اطلاق انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ اگر جرم برطانوی طیارے میں ہو تو متاثرہ کو معاوضہ ملتا ہے، مگر غیر ملکی طیارے میں ہونے والا جرم قانونی تکنیکی رکاوٹوں کے باعث “غیر متعلقہ” قرار دے دیا جاتا ہے۔
یہ کیس منظرعام پر آتے ہی سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔ ہزاروں صارفین نے ٹوئٹر (ایکس) پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ خواتین کے تحفظ کے دعوے صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے کہا کہ یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ “قانون انصاف سے تیز نہیں، بلکہ انصاف قانون کے پیچھے رُک گیا ہے۔”
کئی پارلیمانی اراکین نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا کہ Criminal Injuries Compensation Scheme میں فوری اصلاحات کی جائیں تاکہ کسی بھی متاثرہ شخص کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔
دوسری جانب، وزارتِ انصاف کے ترجمان نے صرف اتنا کہا کہ “ہم متاثرہ کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔”
یہ واقعہ نہ صرف خواتین کے تحفظ کے قوانین کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے بلکہ برطانیہ کے قانونی ڈھانچے میں موجود پیچیدگیوں کو بھی نمایاں کرتا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب جرم برطانوی حدود یا شہریوں کے ساتھ ہو، تو انصاف کی فراہمی قومی ترجیح ہونی چاہیے — چاہے جرم کسی غیر ملکی پرواز یا ہوٹل میں کیوں نہ ہوا ہو۔
یہ مسئلہ بین الاقوامی قانون کے دائرے میں بھی نیا سوال پیدا کرتا ہے: کیا ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ ہونے والے جرائم کے لیے ذمہ دار نہیں رہتی اگر وہ جرم ملک سے باہر ہو؟
اگر حکومت اس معاملے میں اصلاحات نہیں کرتی تو مستقبل میں مزید متاثرین ایسے قانونی خلا کا شکار ہو سکتے ہیں، جس سے انصاف کے عالمی معیار پر سوال اٹھے گا۔
قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال ہے کہ اس کیس کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ معاوضے کے قوانین میں اصلاحات کرے۔
پارلیمنٹ میں یہ بحث متوقع ہے کہ Civil Aviation Act میں موجود خلا کو دور کیا جائے اور تمام برطانوی شہریوں کو یکساں تحفظ دیا جائے — چاہے وہ کسی بھی ملک کی پرواز میں کیوں نہ ہوں۔
عوامی سطح پر بھی خواتین کے تحفظ سے متعلق آگاہی مہمات میں اضافہ متوقع ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ دنیا بھر کے ایئر لائنز کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ اپنے عملے کو تربیت دیں تاکہ دورانِ پرواز ایسے واقعات سے فوری طور پر نمٹا جا سکے۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انصاف کا حصول صرف عدالت کے فیصلے تک محدود نہیں۔ متاثرہ کو ذہنی، مالی اور سماجی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ دوبارہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹ سکے۔
خواتین کے تحفظ کے قوانین میں موجود خامیاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ ریاست ان پر فوری نظرِ ثانی کرے۔
اگر ایک متاثرہ خاتون، جو انصاف کے دروازے تک پہنچ چکی ہے، قانونی اصطلاحات کے جال میں پھنس جائے تو یہ پورے نظام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
حقیقی انصاف صرف سزا دینے سے نہیں بلکہ متاثرہ کو تحفظ، اعتماد اور وقار واپس دلانے سے مکمل ہوتا ہے — اور یہی اصل خواتین کے تحفظ کا مقصد ہونا چاہیے۔