پاکستان کی سیاست ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے، جہاں علی امین گنڈاپور کا جلسہ 27 ستمبر کو پشاور میں متوقع سیاسی منظرنامے کو یکسر تبدیل کرنے والا قرار دیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کا ماننا ہے کہ یہ جلسہ محض ایک سیاسی اجتماع نہیں بلکہ ایک تاریخی موقع ہے جس سے ملک کی آئندہ سمت کا تعین ہو گا۔
راولپنڈی میں ایڈيالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گنڈاپور نے واضح پیغام دیا کہ پارٹی متحد ہے اور حقیقی آزادی کی جدوجہد اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔
ان کے بیان نے نہ صرف پی ٹی آئی کے کارکنوں کو متحرک کیا ہے بلکہ سیاسی مبصرین کے لیے بھی یہ سوال چھوڑ دیا ہے کہ آیا یہ جلسہ واقعی ملکی سیاست میں نیا باب کھول پائے گا یا نہیں۔
ایڈيالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ 27 ستمبر کو پشاور میں ہونے والا جلسہ تحریک انصاف کی تاریخ کا سب سے اہم موقع ثابت ہو گا۔ ان کے مطابق یہ اجتماع محض سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کی سمت طے کرے گا۔
انہوں نے پارٹی کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ ہر صورت اس جلسے میں بھرپور شرکت یقینی بنائیں۔ “خیبر پختونخوا تحریک انصاف کا قلعہ ہے، اس لیے یہاں سے طاقت کا نیا پیغام جانا چاہیے۔” ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی قیادت ہی وہ قوت ہے جو ملک کو آئینی راستے پر واپس لا سکتی ہے۔
The Peshawar jalsa on September 27th will be historic. CM Khyber Pakhtunkhwa @AliAminKhanPTI Gandapur said it will prove Imran Khan’s overwhelming popularity to the world! pic.twitter.com/arTlpXFieo
— PTI USA Official (@PTIOfficialUSA) September 16, 2025
گنڈاپور نے افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ “ملاقات پر پابندیوں کا مقصد پارٹی کے اندر بداعتمادی پیدا کرنا ہے، لیکن ہم متحد ہیں اور رہیں گے۔” ان کے مطابق عمران خان اور ان کی اہلیہ پر قائم مقدمات جھوٹ اور سیاسی انتقام پر مبنی ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے پی ٹی آئی قیادت سے رابطے مزید محدود کیے تو اس سے سیاسی تناؤ میں اضافہ ہو گا۔ “ہماری جدوجہد آئین کے دائرے میں ہے، لیکن اگر حق چھینا گیا تو عوامی طاقت کے ذریعے اسے واپس لیا جائے گا۔”
ادھر چیئرمین پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ توشہ خانہ 2.0 کیس کو جان بوجھ کر طول دیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق عمران خان پر لگائے گئے الزامات قانونی لحاظ سے کمزور ہیں اور جھوٹے گواہوں کے ذریعے کیس کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے عدالتی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ “چند مخصوص صحافیوں کو عدالت میں داخل ہونے دیا جاتا ہے، اور انہیں بھی آزادانہ رپورٹنگ نہیں کرنے دی جاتی۔” علیمہ خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، حتیٰ کہ انہیں اپنے بچوں سے بات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔
تحریک انصاف پچھلے دو سالوں سے سیاسی دباؤ میں ہے۔ عمران خان کی گرفتاری اور عدالتی مقدمات نے پارٹی کی تنظیمی سرگرمیوں کو متاثر ضرور کیا، مگر گنڈاپور کی قیادت میں خیبر پختونخوا حکومت پارٹی کے بیانیے کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہی۔
خیبر پختونخوا ہمیشہ سے پی ٹی آئی کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ صوبے میں عوامی حمایت بدستور موجود ہے، جس کا اظہار گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملا۔
دوسری طرف، پی ٹی آئی کی قیادت کا مؤقف ہے کہ موجودہ حکومت انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ عمران خان کے خلاف متعدد کیسز کو سیاسی بنیادوں پر بڑھایا جا رہا ہے، تاکہ پارٹی کے اندر بے یقینی پیدا کی جا سکے۔ تاہم گنڈاپور کا کہنا ہے کہ “یہ دباؤ ہمیں مزید مضبوط بناتا ہے، کمزور نہیں۔”
گنڈاپور کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر “پشاور جلسہ” اور “27 ستمبر” کے ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ بن گئے۔ پارٹی کارکنان نے جلسے میں شرکت کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ دن “حقیقی آزادی کی جدوجہد” کا سنگ میل ہو گا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق گنڈاپور کا بیانیہ پی ٹی آئی کے روایتی ووٹرز کو ایک بار پھر متحرک کر رہا ہے۔
دوسری جانب حکومت کے کچھ رہنماؤں نے جلسے کے اعلان کو “سیاسی دباؤ ڈالنے کی کوشش” قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالتی مقدمات کو جلسوں کے ذریعے متاثر کرنے کی کوشش جمہوری عمل کے خلاف ہے۔ تاہم عوامی سطح پر پی ٹی آئی کے حامیوں میں جوش و خروش بڑھتا جا رہا ہے اور پشاور شہر میں بڑے پیمانے پر تیاریوں کا آغاز ہو چکا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا جلسہ تحریک انصاف کے لیے اعتماد بحال کرنے کا موقع بن سکتا ہے۔ اگر جلسہ کامیاب ہوا تو یہ پی ٹی آئی کی تنظیمی قوت کا مظاہرہ ہو گا، اور ممکن ہے کہ عمران خان کے مقدمات پر عوامی دباؤ بڑھے۔
تاہم ماہرین یہ بھی خبردار کر رہے ہیں کہ اس جلسے کا سیاسی ماحول پر اثر دو طرفہ ہو سکتا ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کے لیے یہ عوامی حمایت کی بحالی کا اشارہ ہوگا، تو دوسری طرف حکومت اس اجتماع کو قانون و نظم کی آزمائش کے طور پر دیکھ سکتی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ جلسے کے بعد ملکی سیاست میں مذاکرات کی فضا پیدا ہو — خاص طور پر اگر گنڈاپور اپنے خطاب میں کسی “قومی مفاہمت” کی تجویز دیں۔
اگر پشاور کا جلسہ کامیاب رہا تو تحریک انصاف دوبارہ قومی سطح پر اپنی سیاسی ساکھ مستحکم کر سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں دیگر صوبوں میں بھی بڑے اجتماعات کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
یہ جلسہ عمران خان کی رہائی کے مطالبے کو نئی قوت دے سکتا ہے، اور ممکن ہے کہ پی ٹی آئی آئندہ چند ہفتوں میں ملک گیر تحریک کا اعلان کرے۔
دوسری جانب اگر جلسے کو انتظامی یا قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تو سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ اس صورت میں عوامی ردعمل کو قابو میں رکھنا حکومت کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔
27 ستمبر کا دن پاکستان کی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ علی امین گنڈاپور کا جلسہ تحریک انصاف کے لیے نئی توانائی اور عوامی یکجہتی کی علامت بن سکتا ہے۔
تاہم اس وقت ملک کو سیاسی تصادم نہیں بلکہ استحکام اور مکالمے کی ضرورت ہے۔ اگر تمام فریقین تحمل اور دانشمندی سے آگے بڑھیں تو یہ جلسہ صرف ایک سیاسی تقریب نہیں بلکہ قومی ہم آہنگی کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔