بھارت اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے دنیا کی معیشت پر اثر انداز ہوتے آئے ہیں۔ دونوں ممالک کی معیشتی شراکت داری نہ صرف ان کی داخلی ترقی کے لیے اہم ہے بلکہ عالمی تجارتی ماحول کو بھی متاثر کرتی ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئے ہیں جب واشنگٹن نے بھارتی برآمدات پر بھاری محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے نے نئی دہلی کو مشکل دو راہے پر لاکھڑا کیا ہے جہاں ایک طرف قومی مفادات ہیں تو دوسری طرف عالمی تجارتی دباؤ۔
بھارتی وزیرِ خارجہ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں لیکن کچھ “سرخ لکیریں” ایسی ہیں جن پر بھارت کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ان کے مطابق بھارتی کسانوں اور چھوٹے کاروباری طبقے کے مفادات کسی بھی سودے میں سب سے مقدم ہیں۔
امریکہ نے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد تک اضافی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جو بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکہ تصور کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے نصف محصولات پہلے ہی لاگو ہو چکے ہیں جبکہ باقی چند روز میں نافذ ہو جائیں گے۔ یہ فیصلہ بنیادی طور پر بھارت کی روسی تیل کی درآمدات کے پس منظر میں سامنے آیا ہے، جو امریکی پالیسی سازوں کے نزدیک ایک حساس معاملہ بن چکا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکی تجارتی مذاکرات کاروں کا طے شدہ دورہ نئی دہلی منسوخ کر دیا گیا ہے، جس سے اس امید کو بڑا نقصان پہنچا کہ دونوں ممالک اس مسئلے کو بات چیت سے حل کر سکیں گے۔ بھارت کی حکومت کا موقف یہ ہے کہ قومی خودمختاری اور معاشی تحفظ پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں، اور کسی بھی دباؤ کے باوجود فیصلے قومی مفاد کو سامنے رکھ کر کیے جائیں گے۔
Indian Foreign Minister says if you have a problem buying oil from India don’t buy it nobody forced you. pic.twitter.com/z42nkv3BBP
— Globe Eye News (@GlobeEyeNews) August 23, 2025
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق اگر یہ اضافی محصولات مکمل طور پر نافذ ہو گئے تو بھارت کی معیشت کو سالانہ بنیاد پر 0.8 فیصد پوائنٹ کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ کمی نہ صرف موجودہ ترقی کی رفتار کو متاثر کرے گی بلکہ بھارت کے اس عالمی امیج کو بھی دھندلا سکتی ہے جس کے تحت وہ خود کو مینوفیکچرنگ ہب کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
بھارت اور امریکہ کے تجارتی تعلقات ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ ماضی میں بھی مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہوئے جب بھارت نے اپنی زرعی اور ڈیری منڈی کو امریکی مصنوعات کے لیے کھولنے سے انکار کر دیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 190 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، لیکن اس کے باوجود اختلافات اکثر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔
بھارت نے حال ہی میں کپاس پر عائد درآمدی ڈیوٹی عارضی طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، تاکہ امریکی کاشتکاروں اور بھارتی ٹیکسٹائل صنعت دونوں کو فائدہ پہنچ سکے۔ اس اقدام کو واشنگٹن کے لیے ایک مثبت پیغام سمجھا گیا، مگر اس کے باوجود امریکہ کی جانب سے بھاری محصولات نے تعلقات کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
بھارت کے اندر سیاسی حلقوں میں اس فیصلے پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کو مزید جارحانہ حکمتِ عملی اپنانی چاہیے تاکہ واشنگٹن پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ سوشل میڈیا پر عوام کی بڑی تعداد نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ یہ اقدامات عام کسانوں اور چھوٹے برآمد کنندگان کو براہِ راست متاثر کریں گے۔
بین الاقوامی ماہرین بھی اس صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت اگر دباؤ کے باوجود اپنی پالیسی پر قائم رہتا ہے تو یہ طویل مدت میں اس کی خودمختاری کو مزید مضبوط کرے گا۔ تاہم قلیل مدت میں اس کا بوجھ مقامی صنعتوں اور معیشت کو برداشت کرنا ہوگا۔
یہ صورتحال صرف ایک تجارتی تنازعہ نہیں بلکہ بڑی طاقتوں کی پالیسیوں کا ٹکراؤ بھی ہے۔ بھارت اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روسی تیل پر انحصار بڑھا رہا ہے، جبکہ امریکہ اس پر قدغن لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ تنازعہ مستقبل میں عالمی توانائی منڈیوں اور جغرافیائی سیاست کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق بھارت کی برآمدات پر اضافی محصولات نہ صرف امریکی منڈی میں اس کی موجودگی کو کمزور کریں گی بلکہ یورپی یونین اور دیگر مارکیٹوں میں بھی اس کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر بھارتی مصنوعات مہنگی ہو گئیں تو عالمی خریدار متبادل مارکیٹوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
اگر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات دوبارہ بحال نہ ہوئے تو اس تنازعے کے اثرات بڑھ سکتے ہیں۔ بھارت کو ممکن ہے کہ اپنی برآمدات کو نئی منڈیوں کی طرف موڑنا پڑے، یا پھر داخلی سبسڈی کے ذریعے اپنے برآمد کنندگان کو سہارا دینا پڑے۔
دوسری جانب امریکہ کے لیے بھی یہ پالیسی دو دھاری تلوار ہے، کیونکہ بھارتی مارکیٹ میں امریکی مصنوعات کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ اگر تعلقات زیادہ خراب ہوئے تو یہ نہ صرف دوطرفہ تجارت بلکہ عالمی تجارتی ڈھانچے پر بھی اثر انداز ہوگا۔
بھارت اور امریکہ کے درمیان حالیہ تجارتی کشمکش اس بات کی علامت ہے کہ عالمی معیشت میں بڑے فیصلے ہمیشہ سیاسی اور اسٹریٹیجک پہلوؤں سے جڑے ہوتے ہیں۔ بھارت نے واضح کر دیا ہے کہ قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، لیکن آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا دونوں ممالک ایک متوازن حل تلاش کر پاتے ہیں یا یہ تنازعہ مزید شدت اختیار کرتا ہے۔