روس یوکرین ڈرون حملے ایک بار پھر عالمی سیاست اور سکیورٹی کے ایجنڈے پر چھا گئے ہیں۔ کورسک کے ایٹمی پاور پلانٹ میں آگ لگنے اور لینن گراڈ ریجن کی بندرگاہ پر دھماکوں نے بین الاقوامی اداروں کو متوجہ کیا ہے۔ یہ واقعہ صرف روس اور یوکرین کی جنگ تک محدود نہیں بلکہ عالمی توانائی اور ایٹمی تحفظ کے لیے سنگین خدشات بھی پیدا کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، ایسے حملے کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آیا جنگ اب توانائی کے ڈھانچوں اور ایٹمی تنصیبات کو بھی براہِ راست نشانہ بنا رہی ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ یوکرین کے ڈرونز نے کورسک میں واقع ایٹمی پاور پلانٹ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک ٹرانسفارمر کو نقصان پہنچا اور آگ بھڑک اٹھی۔ پلانٹ انتظامیہ نے تصدیق کی کہ تابکاری کی سطح معمول کے مطابق ہے اور آگ فوراً بجھا دی گئی۔ خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اسی دوران لینن گراڈ ریجن کی اُست-لوگا بندرگاہ پر بھی آگ لگی، جہاں ایندھن کا ایک بڑا برآمدی ٹرمینل موجود ہے۔ مقامی حکام کے مطابق تقریباً دس یوکرینی ڈرون مار گرائے گئے لیکن ان کا ملبہ گرنے سے دھماکہ اور آگ لگ گئی۔ یوکرین کی حکومت نے ان الزامات پر براہِ راست ردعمل دینے سے گریز کیا ہے۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) نے کورسک پلانٹ کے واقعے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر ایٹمی تنصیب کو ہر وقت محفوظ رکھنا لازمی ہے۔ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل نے یاد دہانی کرائی کہ روس اور یوکرین کو جنگ کے دوران ایٹمی تنصیبات کے قریب ہر قسم کے فوجی اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔
Dear world, tonight drones lit up russia’s sky:
⚡ Baltic’s biggest port was hit.
⚡ 20+ explosions shook Syzran refinery.
⚡ A fire rose near Kursk nuclear plant.Remember this: Ukraine is fighting back. pic.twitter.com/3e94xI176R
— Angelica Shalagina🇺🇦 (@angelshalagina) August 24, 2025
یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب یوکرین اپنا یومِ آزادی منا رہا تھا۔ صدر ولادیمیر زیلینسکی نے قوم سے خطاب میں کہا کہ یوکرین اپنی آزادی اور خودمختاری کے دفاع کے لیے کسی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ان کے مطابق: “جب روس ہماری توانائی پر حملہ کرتا ہے تو اس کے ریفائنری جلتے ہیں، یہی انصاف ہے اور یہی یوکرین کا جواب ہے۔”
کیف میں ہونے والی تقریبات میں امریکی ایلچی اور کینیڈا کے وزیرِاعظم کی شرکت نے عالمی حمایت کا واضح پیغام دیا، جبکہ برطانیہ کے بادشاہ نے یوکرینی عوام کو “ناقابلِ تسخیر” قرار دیتے ہوئے نیک تمناؤں کا پیغام دیا۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ فروری 2022 میں شروع ہوئی جب روس نے بڑے پیمانے پر یوکرین پر حملہ کیا۔ اس وقت سے روس تقریباً 20 فیصد یوکرینی علاقے پر قابض ہے۔ اس جنگ نے نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا کو توانائی کے بحران اور معاشی عدم استحکام سے دوچار کر دیا۔
ایٹمی تنصیبات پر حملے یا ان کے قریب لڑائی بین الاقوامی برادری کے لیے سب سے بڑا خدشہ رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی زاپورژیا نیوکلیئر پلانٹ کے قریب جھڑپوں نے عالمی اداروں کو الرٹ کر دیا تھا۔ کورسک کا واقعہ اس خطرے کو مزید نمایاں کرتا ہے۔
روس نے یوکرین پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ “ریاستی دہشت گردی” ہے، جبکہ یوکرین نے جواب میں خاموشی اختیار کی۔ تاہم زیلینسکی کے بیانات نے ظاہر کیا کہ یوکرین دشمن کو اس کی ہی زبان میں جواب دینا چاہتا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس واقعے کے بعد تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ماہرین اور عام شہریوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ایٹمی پلانٹ کو سنجیدہ نقصان پہنچتا تو یہ حادثہ صرف روس یا یوکرین نہیں بلکہ پوری دنیا کو متاثر کر سکتا تھا۔
یورپی ممالک نے ایک بار پھر جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ ناروے، سویڈن اور برطانیہ نے یوکرین کو مزید دفاعی سامان دینے کا اعلان کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی حمایت تاحال مضبوط ہے۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ جنگ اب صرف محاذوں پر محدود نہیں رہی بلکہ توانائی اور ایٹمی ڈھانچوں تک جا پہنچی ہے۔ کورسک پلانٹ کا معاملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تنازع اگر قابو میں نہ آیا تو ایک چھوٹی سی چنگاری عالمی بحران میں بدل سکتی ہے۔
سیاسی طور پر یہ معاملہ روس کو مزید سخت اقدامات کی طرف دھکیل سکتا ہے جبکہ یوکرین عالمی ہمدردی اور حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک کے لیے بھی یہ ایک موقع ہے کہ وہ یوکرین کو مزید فوجی و معاشی امداد فراہم کریں تاکہ روس پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔
مستقبل کے امکانات
اگر روس اور یوکرین کے درمیان ڈرون حملے اسی طرح جاری رہے تو امکان ہے کہ ایٹمی تنصیبات مزید خطرے میں آئیں گی۔ عالمی ادارے پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ ایک بڑی ایٹمی آفت دنیا کے کسی بھی خطے تک پھیل سکتی ہے۔
دوسری جانب امن مذاکرات کی کوششیں بار بار ناکام ہو رہی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف جنگ طول پکڑے گی بلکہ یورپ میں توانائی بحران اور عالمی معیشت پر بھی مزید دباؤ بڑھے گا۔
روس یوکرین ڈرون حملے اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، جہاں صرف سرحدی جھڑپیں نہیں بلکہ عالمی تحفظ کے ادارے بھی تشویش کا شکار ہیں۔ کورسک پلانٹ کا واقعہ ایک وارننگ ہے کہ اگر جنگ فوری طور پر نہیں رکی تو نتائج ناقابلِ تلافی ہو سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا ہوگا کہ عالمی طاقتیں کس طرح اس آگ کو مزید بھڑکنے سے روک پاتی ہیں۔