اسرائیل غزہ بمباری بحران اس وقت مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا المیہ بن چکا ہے۔ غزہ کے شہری کئی ماہ سے بمباری، بھوک، بے گھر ہونے اور طبی سہولیات کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی فوجی کارروائیاں اور حماس کے خلاف سخت موقف نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
یہ بحران صرف غزہ کی سرحدوں تک محدود نہیں رہا بلکہ عالمی سطح پر تشویش، مذمت اور احتجاج کی لہریں بھی اٹھا رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ یہ صورتحال انسانی تباہی میں بدل چکی ہے۔
غزہ شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں حالیہ دنوں میں اسرائیلی فضائی اور زمینی کارروائیاں تیز ہو گئی ہیں۔ شمالی اور مشرقی حصوں میں مسلسل دھماکے اور گولہ باری نے شہری زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ جبالیا کے مہاجر کیمپ میں بھی اسرائیلی فوج نے متعدد عمارتوں کو تباہ کر دیا۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک 62 ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور ایک لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں درجنوں ہلاکتوں اور سینکڑوں زخمیوں کی اطلاع ملی ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں 1200 اسرائیلی ہلاک اور 251 یرغمال بنائے گئے تھے، جس کے بعد اسرائیل نے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے واضح کر دیا ہے کہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حماس کو مکمل طور پر ختم نہ کر دیا جائے۔
🚨BREAKING: Gaza is under a massive Israeli attack right now. Local sources say Israel is using chemical agents, residents report severe burning sensations when they breathe.
pic.twitter.com/BrcIQXOG4e— Dr.Sam Youssef Ph.D.,M.Sc.,DPT. (@drhossamsamy65) August 24, 2025
رات گئے زیتون، شجاعیہ اور صبرہ جیسے علاقے بھی فضائی اور ٹینک حملوں کی زد میں آئے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان کارروائیوں کا مقصد حماس کے دوبارہ منظم ہونے کو روکنا ہے۔ دوسری طرف، غزہ کے شہری مسلسل نقل مکانی پر مجبور ہیں اور لاکھوں افراد پناہ گاہوں میں غیر انسانی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
غزہ کی پٹی کئی دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کا مرکز رہی ہے۔ 2007 میں حماس کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا محاصرہ کیا، جس کے نتیجے میں شہریوں کو تعلیم، صحت، پانی اور روزگار کے شعبوں میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
گزشتہ برسوں میں متعدد بار اسرائیل اور حماس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں لیکن اکتوبر 2023 کا حملہ اور اس کے بعد کی کارروائیاں اب تک کے سب سے ہولناک معرکے میں بدل چکی ہیں۔ اس جنگ نے نہ صرف غزہ کو کھنڈر بنا دیا بلکہ عالمی سیاست کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔
عالمی سطح پر اس بحران نے شدید ردعمل پیدا کیا ہے۔ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بار بار اسرائیل سے جنگ بندی کی اپیل کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے 90 فیصد گھر یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا بری طرح متاثر ہیں جبکہ صرف نصف اسپتال محدود سہولیات کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
اسرائیل کے اندر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یرغمالیوں کے اہل خانہ روزانہ احتجاج کر رہے ہیں اور وزیراعظم نیتن یاہو سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ فوری جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کریں۔
عوامی سطح پر سوشل میڈیا پر بھی غزہ کے مناظر نے دنیا بھر میں ہمدردی اور غم و غصہ پیدا کیا ہے۔ مختلف ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں اور انسانی ہمدردی کی امداد کی اپیلیں بڑھتی جا رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اسرائیل غزہ بمباری بحران اب محض ایک علاقائی جنگ نہیں رہا بلکہ ایک عالمی انسانی مسئلہ بن گیا ہے۔ یہ بحران مشرق وسطیٰ کی سیاست کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل رہا ہے۔
اسرائیل کے سخت مؤقف نے نہ صرف عرب ممالک بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی پالیسی مباحث کو جنم دیا ہے۔ طویل جنگ سے اسرائیل کی اپنی معیشت پر بھی بوجھ پڑ رہا ہے جبکہ فلسطین کی معیشت اور بنیادی ڈھانچہ تقریباً تباہ ہو چکا ہے۔
غزہ کی صورتحال آنے والے مہینوں میں مزید بگڑ سکتی ہے اگر فوری جنگ بندی نہ ہوئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مستقل امن کے بغیر یہ خطہ مزید تشدد اور انتہا پسندی کا شکار ہوگا۔
قطر اور مصر کے ذریعے جاری مذاکرات اگر کامیاب ہو گئے تو قیدیوں کی رہائی اور عارضی جنگ بندی ممکن ہے، لیکن اسرائیل کے سخت مؤقف کے باعث حتمی امن کا راستہ ابھی دور نظر آتا ہے۔
اسرائیل غزہ بمباری بحران اس وقت نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ پوری دنیا کے ضمیر کا امتحان ہے۔ ہزاروں معصوم جانوں کا ضیاع، تباہ شدہ شہر اور بے گھر خاندان اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ عالمی برادری فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔
امن اور انصاف کے بغیر یہ تنازع مزید تباہی لائے گا۔ اس لیے ضرورت ہے کہ سیاست سے بڑھ کر انسانی زندگی کو ترجیح دی جائے۔