logo

پاک–چین تعلقات: پاکستانی فوج کو استحکام کا ضامن قرار، خطے پر اثرات

پاک–چین تعلقات

پاک–چین تعلقات میں نئی پیشرفت، چینی وزیرِ خارجہ نے پاکستانی فوج کو استحکام کا ضامن قرار دیا اور دونوں ممالک کی اسٹریٹجک شراکت داری کو سراہا۔

پاک–چین تعلقات ہمیشہ سے جنوبی ایشیا کی سیاست اور عالمی سفارت کاری میں مرکزی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی دوستی کو اکثر “آہنی بھائی چارہ” کہا جاتا ہے، جو وقت کے ہر امتحان پر پورا اتری ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک اہم ملاقات نے اس رشتے کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے، جس میں چین نے نہ صرف پاکستان کی مسلح افواج کی تعریف کی بلکہ مستقبل میں تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب دنیا بھر میں سیاسی اور معاشی غیر یقینی کی کیفیت بڑھتی جا رہی ہے، اور ایسے ماحول میں خطے کی پائیدار شراکت داریاں زیادہ اہمیت اختیار کر لیتی ہیں۔

21 اگست کو بیجنگ میں چین کے وزیرِ خارجہ وانگ ای اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے درمیان ایک اعلیٰ سطحی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد چین کی وزارتِ خارجہ نے ایک جامع بیان جاری کیا، جس میں پاکستانی فوج کو خطے میں امن اور استحکام کا اہم ضامن قرار دیا گیا۔
وانگ ای نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف اپنے ملک میں امن قائم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں بلکہ پاک–چین تعلقات کو عملی شکل دینے میں بھی پیش پیش رہی ہیں۔ ان کے مطابق پاکستانی فوج نے ہمیشہ دونوں ممالک کی قیادت کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

چینی وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ موجودہ عالمی حالات میں، جہاں جغرافیائی سیاست میں کشیدگی اور معاشی بحران نمایاں ہیں، وہاں پاکستان اور چین کے تعلقات کا مستحکم رہنا پورے خطے کے لیے نیک شگون ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ چین اپنی سفارت کاری میں ہمیشہ پاکستان کو ترجیح دیتا ہے اور مشکل وقت میں اسلام آباد کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔
ادھر آرمی چیف عاصم منیر نے ملاقات میں کہا کہ چین پاکستان کا “آہنی بھائی” ہے اور دونوں ممالک نے ہمیشہ ہر چیلنج میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ انہوں نے پاک–چین اسٹریٹجک شراکت داری کو “چٹان کی طرح مضبوط” قرار دیتے ہوئے یقین دلایا کہ پاکستان انسداد دہشت گردی، سلامتی اور ترقی کے منصوبوں میں چین کے ساتھ بھرپور تعاون جاری رکھے گا۔

مزید برآں جنرل عاصم منیر نے پاکستان کی ترقی میں چین کے کردار پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان میں موجود چینی اداروں، عملے اور منصوبوں کی حفاظت کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یہ یقین دہانی سی پیک اور دیگر منصوبوں کے تناظر میں نہایت اہمیت رکھتی ہے۔

پس منظر

پاکستان اور چین کے تعلقات کی بنیاد 1950 کی دہائی میں رکھی گئی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلقات مضبوط تر ہوتے گئے۔ 1965 کی جنگ ہو یا 1971 کا بحران، چین نے ہمیشہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری حمایت کی۔
گزشتہ دہائی میں پاک–چین اقتصادی راہداری (CPEC) نے اس دوستی کو نئی جہت دی، جس کے تحت اربوں ڈالر کے منصوبے شروع ہوئے۔ یہ منصوبے پاکستان کے توانائی، ٹرانسپورٹ اور صنعت کے شعبے میں بنیادی تبدیلیاں لا رہے ہیں۔

پاکستانی فوج بھی ہمیشہ سے سی پیک اور دیگر چینی منصوبوں کی حفاظت کے حوالے سے سرگرم رہی ہے، تاکہ دونوں ممالک کے مشترکہ خواب عملی شکل اختیار کر سکیں۔ یہی پس منظر موجودہ ملاقات کو مزید اہمیت دیتا ہے۔

ردعمل

اس پیش رفت پر ماہرین نے ملا جلا ردعمل ظاہر کیا۔ کچھ مبصرین کے مطابق، چین کی طرف سے پاکستانی فوج پر اعتماد ظاہر کرنا ایک واضح پیغام ہے کہ دونوں ممالک کی اسٹریٹجک شراکت داری مزید گہری ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے “آہنی بھائی” کی اصطلاح کو ایک بار پھر ٹرینڈ بنا دیا اور دونوں ممالک کی دوستی کو سراہا۔
سیاسی حلقوں میں بھی اس ملاقات کو خوش آئند قرار دیا گیا۔ بعض تجزیہ کاروں نے کہا کہ ایسے بیانات خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک پیغام ہیں کہ پاکستان اور چین اپنی دوستی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

تجزیہ

یہ ملاقات محض سفارتی خوش کلامی نہیں بلکہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں ایک اسٹریٹجک پیش رفت ہے۔ افغانستان کی صورتحال، بھارت کے ساتھ کشیدگی اور عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کی مسابقت کے ماحول میں پاکستان اور چین کی شراکت داری خطے کے توازن میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کو اس وقت شدید مالی دباؤ کا سامنا ہے۔ چین کی حمایت اور سی پیک کے منصوبے پاکستان کے لیے ایک ریلیف ثابت ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ ان منصوبوں پر شفافیت اور تیز رفتاری کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے۔

مستقبل کے اثرات

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور چین اپنی عسکری اور اقتصادی شراکت داری کو اسی طرح آگے بڑھاتے رہے تو خطے میں ان کا اثر مزید گہرا ہو جائے گا۔ خاص طور پر سی پیک کے دوسرے مرحلے میں توانائی اور ٹیکنالوجی کے منصوبے پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ دونوں ممالک کی فوجی سطح پر قریبی روابط بھارت اور دیگر علاقائی کھلاڑیوں کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہیں۔ مستقبل میں یہ تعلقات صرف سیکیورٹی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ تعلیم، صحت اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں بھی پھیل سکتے ہیں۔

نتیجہ

پاک–چین تعلقات ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ چینی وزیرِ خارجہ کے حالیہ بیان اور آرمی چیف کی یقین دہانی نے یہ ثابت کیا ہے کہ دونوں ممالک کی دوستی وقتی حالات پر نہیں بلکہ گہرے اعتماد اور مشترکہ مفادات پر مبنی ہے۔
ایسے وقت میں جب دنیا غیر یقینی کے دور سے گزر رہی ہے، پاکستان اور چین کا ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا رہنا نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک مثبت پیغام ہے۔