logo

ہٹی برادری کی انوکھی روایت: ہماچل پردیش میں دو بھائیوں کی ایک ہی دلہن سے شادی

ہٹی برادری

ہٹی برادری کی انوکھی روایت میں ہماچل پردیش کے دو بھائیوں نے ایک ہی دلہن سے شادی کر کے قدیم ثقافتی رسم کو دوبارہ زندہ کر دیا۔

ہماچل پردیش کے پہاڑی علاقے اپنی دلکش وادیوں اور قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ انوکھی سماجی و ثقافتی روایات کے لیے بھی مشہور ہیں۔ انہی روایات میں سے ایک ایسی رسم حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہے جس نے نہ صرف مقامی برادری بلکہ پورے ملک میں لوگوں کی توجہ حاصل کر لی۔ یہ روایت ہٹی برادری سے جڑی ہے، جہاں ایک عورت کا بیک وقت دو بھائیوں سے شادی کرنا صدیوں پرانی روایت کا حصہ رہا ہے۔

یہ واقعہ ضلع سرمور کے ایک گاؤں میں پیش آیا، جہاں دو بھائیوں نے ایک ہی دلہن کو اپنا شریکِ حیات بنایا۔ بظاہر یہ ایک عام شادی تھی، مگر اس کے پسِ منظر اور سماجی اثرات نے اسے غیر معمولی بنا دیا۔

بارہ جولائی کو سرمور کے دور افتادہ گاؤں شلّی میں ایک منفرد شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ تین دن جاری رہنے والی اس تقریب میں گاؤں کے افراد کے ساتھ ساتھ قریبی علاقوں سے بھی لوگ شریک ہوئے۔ دلہن سونیتا چوہان نے ایک ہی وقت میں دو بھائیوں پردیپ اور کپل نیگی سے شادی کر کے ایک پرانی روایت کو عملی جامہ پہنایا۔

تقریب روایتی لوک گیتوں، رقص اور مذہبی رسومات سے مزین تھی، جس میں سو سے زائد افراد شریک تھے۔ دلہن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ مکمل رضامندی اور خوشی سے کیا گیا اور ان پر کسی قسم کا دباؤ نہیں تھا۔ دونوں بھائیوں نے بھی اس روایت پر فخر کا اظہار کیا۔ پردیپ، جو ایک سرکاری ملازم ہیں، نے کہا کہ وہ اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے پر خوش ہیں۔ کپل، جو بیرون ملک کام کرتے ہیں، نے وضاحت کی کہ اگرچہ وہ زیادہ تر باہر رہتے ہیں مگر اس روایت سے ان کی شریکِ حیات کو محبت اور سہارا میسر ہوگا۔

مقامی سطح پر اس طرح کی شادی کو “جوڑی دارا شادی” کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل ایسی مثالیں کم نظر آتی ہیں، لیکن قانونی طور پر یہ رشتے تسلیم شدہ ہیں۔ چند سالوں میں قریبی دیہات میں ایسی کئی شادیاں ریکارڈ ہو چکی ہیں، جو ظاہر کرتی ہیں کہ یہ روایت ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔

پس منظر

ہٹی برادری کو 2022 میں باضابطہ طور پر شیڈیولڈ ٹرائب کا درجہ دیا گیا۔ اس وقت تقریباً تین لاکھ افراد پر مشتمل یہ برادری سرحدی خطے کے چار سو سے زائد دیہات میں آباد ہے۔ اس روایت کی ابتدا صدیوں پہلے اس وقت ہوئی جب خاندانوں کو زمین کی تقسیم سے بچانے کی ضرورت پیش آئی۔ جائیداد کو ٹکڑوں میں بٹنے سے محفوظ رکھنے کے لیے بھائی ایک ہی عورت سے شادی کر لیتے تھے۔

اس روایت کی جڑیں صرف ہماچل پردیش تک محدود نہیں بلکہ اتراکھنڈ کے جونسار باؤر اور کِنّور جیسے علاقوں میں بھی پائی جاتی رہی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان رسومات میں کمی آئی، مگر پہاڑی علاقوں کے دور افتادہ دیہات میں یہ کسی نہ کسی شکل میں اب بھی موجود ہیں۔

ردِ عمل

اس شادی کی خبر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی۔ کچھ لوگوں نے اسے ایک منفرد ثقافتی ورثہ قرار دیا اور کہا کہ روایت کو زندہ رکھنا ایک مثبت قدم ہے۔ دوسری طرف، کچھ افراد نے سوال اٹھایا کہ بدلتے دور میں عورت کے حقوق اور سماجی برابری کے تناظر میں اس رسم کو کس طرح دیکھا جائے۔

سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں کی رائے بھی منقسم رہی۔ کچھ نے کہا کہ یہ روایت خاندانی اتحاد اور وراثتی جائیداد کی بقا کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے، جبکہ دوسروں نے نشاندہی کی کہ خواتین کی رائے اور حقوق کو ہمیشہ مقدم رکھا جانا چاہیے۔

تجزیہ

یہ خبر صرف ایک شادی کی نہیں بلکہ ایک وسیع تر سماجی اور قانونی بحث کو جنم دیتی ہے۔ ایک طرف یہ روایت مقامی ثقافت اور شناخت کا حصہ ہے، جبکہ دوسری طرف جدید معاشرے میں صنفی مساوات اور انفرادی آزادی جیسے سوالات کو بھی سامنے لاتی ہے۔

اگرچہ یہ روایت اب بھی قانونی طور پر تسلیم شدہ ہے، لیکن سماجی طور پر اس پر بحث جاری ہے کہ آیا یہ مستقبل میں بھی قائم رہ سکے گی یا وقت کے ساتھ ختم ہو جائے گی۔ خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ایسی روایات میں شریک خواتین کی رائے کو سب سے اہم سمجھا جائے۔

مستقبل کے اثرات

اس واقعے کے بعد امکان ہے کہ ہٹی برادری کے دیگر گاؤں میں بھی اس طرح کی شادیاں توجہ حاصل کریں۔ میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث یہ روایت دوبارہ عوامی مباحثے کا موضوع بن سکتی ہے۔

دوسری طرف، حکومت اور سماجی ادارے اس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ کس طرح ان قدیم رسومات کو تحفظ دیتے ہوئے خواتین کے حقوق اور سماجی انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ آنے والے برسوں میں یہ معاملہ ثقافتی شناخت اور قانونی اصلاحات کے درمیان توازن تلاش کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

نتیجہ

ہٹی برادری کی یہ شادی صرف ایک خاندانی فیصلہ نہیں بلکہ ایک سماجی اور ثقافتی علامت ہے۔ یہ روایت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ معاشرتی اقدار وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں، مگر اپنی جڑوں سے جڑے رہنا بھی ایک ضرورت ہے۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ بدلتے دور میں ایسی روایات کو کس طرح برقرار رکھا جائے تاکہ ثقافت بھی محفوظ رہے اور خواتین کے حقوق بھی متاثر نہ ہوں۔