اسٹارلنک پاکستان میں انٹرنیٹ کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے جا رہا ہے۔ یہ سروس دور دراز علاقوں تک تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جہاں آج تک بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں تھیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سہولت پاکستان کے لیے محض ایک ٹیکنالوجیکل انقلاب ہوگی یا اس کے ساتھ ایسے خطرات بھی جڑے ہیں جو قومی سلامتی اور ڈیٹا کے تحفظ کو متاثر کر سکتے ہیں؟
یہ معاملہ صرف ٹیکنالوجی تک محدود نہیں بلکہ اس میں جغرافیائی سیاست، ڈیٹا کنٹرول اور پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بھی شامل ہیں۔ لہٰذا یہ موضوع محض انٹرنیٹ کی رفتار نہیں بلکہ مستقبل کی اسٹریٹیجک پالیسیوں کا حصہ ہے۔
اسپیس ایکس کی کمپنی اسٹارلنک دنیا بھر میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کر رہی ہے۔ اگر پاکستان اس سروس کو اختیار کرتا ہے تو دیہی اور پسماندہ علاقے جہاں آج تک انٹرنیٹ ایک خواب ہے، وہاں بھی جدید کنیکٹیویٹی ممکن ہو جائے گی۔ یہ سہولت تعلیمی اداروں، صحت کے شعبے، ای کامرس اور ڈیجیٹل ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔
تاہم دوسری طرف ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اسٹارلنک کا پورا انفراسٹرکچر اور کنٹرول پاکستان میں نہیں بلکہ بیرون ملک قائم ہے۔ اسپیس ایکس کے گیٹ ویز، سرورز اور فیصلہ سازی کے مراکز امریکہ میں موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ہنگامی صورتحال یا پاک-بھارت کشیدگی کی صورت میں یہ سروس کسی تیسرے ملک کے دباؤ پر بند ہو جائے تو پاکستان کی انحصاریت سنگین خطرے میں بدل سکتی ہے۔
Starlink is built to deliver reliable high-speed internet, even when a customer’s view of the sky isn’t perfect.
Starlink terminals automatically switch between satellites in real time to address any degradation in the link → https://t.co/NRzPcVgpDi pic.twitter.com/X0TRDOwl7C
— Starlink (@Starlink) August 1, 2025
روس-یوکرین جنگ کی مثال اس حوالے سے اہم ہے۔ جنگ کے دوران یوکرین کو اسٹارلنک نے فوری انٹرنیٹ سہولت فراہم کی، لیکن بعد میں حساس لمحے پر کچھ علاقوں میں سروس معطل بھی کر دی گئی۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک نجی کمپنی اپنی مرضی سے کسی ملک کے اہم فیصلوں اور حتیٰ کہ جنگی حالات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ یہی پہلو پاکستان کے لیے زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ ہمارا پڑوسی بھارت ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے۔
پاکستان کے حکام کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر سرکاری اور عسکری اداروں کا ڈیٹا کسی غیر ملکی سرور کے ذریعے گزرے گا تو جاسوسی اور نگرانی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ڈیٹا انکرپشن اور روٹنگ کا پورا نظام بیرون ملک موجود ہونے کے باعث پاکستان کی ڈیجیٹل خودمختاری کو براہِ راست چیلنج کا سامنا ہوگا۔
پاکستان میں انٹرنیٹ سہولت اکثر مسائل کا شکار رہی ہے۔ کئی مرتبہ حکومت نے داخلی سلامتی یا امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کیے ہیں۔ ایسے میں اگر اسٹارلنک کی سروس فعال ہوئی تو حکومت کے پاس اس پر فوری کنٹرول کا اختیار نہیں ہوگا۔
بھارت نے اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سخت قوانین نافذ کیے ہیں۔ اسٹارلنک کو صرف اسی وقت اجازت دی گئی جب کمپنی نے صارفین کا ڈیٹا مقامی طور پر اسٹور کرنے اور ملکی گیٹ ویز کے ذریعے سروس فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نے اپنے قومی مفاد کو ترجیح دی ہے۔
پاکستانی عوام کے ایک بڑے طبقے کے لیے یہ خبر خوش آئند ہے کہ ان کے دیہی اور دور دراز علاقے بھی دنیا کے جدید انٹرنیٹ نیٹ ورک سے جڑ سکیں گے۔ سوشل میڈیا پر نوجوان طبقہ خاص طور پر پرجوش نظر آ رہا ہے کیونکہ یہ سروس ای لرننگ، آن لائن روزگار اور گلوبل مواقع فراہم کر سکتی ہے۔
ماہرین لیکن زیادہ محتاط ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف تیز رفتار انٹرنیٹ کافی نہیں، بلکہ ڈیٹا کا کنٹرول پاکستان کے اندر ہونا چاہیے۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر اس معاملے میں بھارت جیسی حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو مستقبل میں قومی سلامتی شدید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
یہ معاملہ صرف انٹرنیٹ تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کی اسٹریٹیجک پالیسی کا حصہ ہے۔ اگر پاکستان بغیر حفاظتی اقدامات کے اسٹارلنک کو اجازت دیتا ہے تو یہ ایک غیر ملکی کمپنی کے رحم و کرم پر ڈیجیٹل ڈھانچے کو چھوڑنے کے مترادف ہوگا۔
سیاسی طور پر بھی یہ فیصلہ حساس ہے۔ پاک-بھارت تعلقات میں کسی بھی کشیدگی کے دوران اسٹارلنک کا بند ہونا یا محدود ہونا پاکستان کی کمیونیکیشن صلاحیت کو براہِ راست متاثر کرے گا۔ اس سے فوجی اور سول ادارے یکساں طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔
اگر حکومت سخت ڈیٹا قوانین بناتی ہے، مقامی گیٹ ویز قائم کرتی ہے اور سروس پر ریاستی کنٹرول کا حق محفوظ رکھتی ہے تو اسٹارلنک پاکستان کے لیے ڈیجیٹل انقلاب ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے ای گورننس، تعلیم، صحت اور کاروبار کے شعبوں میں غیر معمولی ترقی ممکن ہے۔
لیکن اگر یہ سروس بغیر کسی حفاظتی فریم ورک کے متعارف کرائی گئی تو مستقبل میں پاکستان کو ڈیٹا لیک، سائبر حملوں اور ہنگامی صورتحال میں رابطے کے خاتمے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسٹارلنک پاکستان میں انٹرنیٹ کی دنیا کے دروازے کھولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ قومی سلامتی اور ڈیجیٹل خودمختاری کے لیے بڑے سوالات کھڑے کرتا ہے۔ یوکرین کی مثال نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ ٹیکنالوجی پر اندھا اعتماد خطرناک ہو سکتا ہے۔
لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس موقع کو محض تیز رفتار انٹرنیٹ کے طور پر نہ دیکھے بلکہ اسے قومی پالیسی اور سیکیورٹی کے تناظر میں سمجھے۔ بصورت دیگر، یہ سہولت ایک بڑے خطرے میں بدل سکتی ہے۔