ماحولیاتی تبدیلی اب کوئی دور کا خطرہ نہیں رہا بلکہ پاکستان کے لیے ایک روز مرہ کی حقیقت بن چکا ہے۔ گرمی کی شدید لہریں، غیر متوقع بارشیں، سیلاب، خشک سالی اور جنگلات کی آگ ایسے مسائل ہیں جنہوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگی کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ اس صورتحال نے پاکستان کو دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے لحاظ سے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔
یہ بحران صرف ماحولیات تک محدود نہیں بلکہ قومی معیشت، زراعت، پانی کے وسائل اور عوامی صحت پر بھی گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں یہ چیلنج ناقابلِ قابو ہو سکتا ہے۔
پاکستان دنیا کے کل گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات جھیل رہا ہے۔ برفانی گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی آ رہی ہے، اور خشک سالی نے زرعی زمینوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔
2022 کے تباہ کن سیلاب اس بات کی واضح مثال ہیں جنہوں نے ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب کر دیا۔ ان سیلابوں میں 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے اور مجموعی نقصان کا تخمینہ 40 ارب ڈالر سے زیادہ لگایا گیا۔ عالمی اداروں کے مطابق، پاکستان ہر سال ماحولیاتی تبدیلی کے باعث 3 سے 14 ارب ڈالر کے درمیان مالی نقصان برداشت کرتا ہے۔
Swat River when the city was hit with floods#Pakistan #Climate pic.twitter.com/hXHwQ74ipl
— Discover Pakistan 🇵🇰 | پاکستان (@PakistanNature) August 16, 2025
زرعی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، جو پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریباً 20 فیصد ہے اور کروڑوں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ گندم، چاول اور کپاس جیسی اہم فصلوں کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ صرف کپاس کی پیداوار ایک سال میں 35 فیصد تک گر گئی، جس نے براہ راست ٹیکسٹائل انڈسٹری کو نقصان پہنچایا، جو پاکستان کی برآمدات کا سب سے بڑا حصہ ہے۔
پانی کی کمی ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ فی کس پانی کی دستیابی ایک ہزار مکعب میٹر سے کم ہوچکی ہے، جو عالمی معیار کے مطابق “انتہائی خطرناک” سطح ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گرمی کی لہروں نے نہ صرف فصلوں بلکہ مویشیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ دودھ اور گوشت کی پیداوار کم ہو رہی ہے اور غریب گھرانے غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں ماحولیاتی مسائل کی تاریخ طویل ہے۔ 2010 کے سیلاب سے لے کر 2022 کی تباہی تک، قدرتی آفات نے بار بار ملک کی کمزور معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ عالمی بینک اور اقوامِ متحدہ بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2050 تک پاکستان کی معیشت میں 20 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔
سیاسی سطح پر بھی اس مسئلے کو بارہا اجاگر کیا گیا ہے۔ سینیٹر شیری رحمان نے بارہا کہا ہے کہ پاکستان “کلائمیٹ گراؤنڈ زیرو” پر ہے اور ماحولیاتی ایمرجنسی کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جدید زرعی ٹیکنالوجی، موسمیاتی انتباہی نظام اور پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں پر فوری توجہ دینی چاہیے۔
سوشل میڈیا پر بھی عوام اس مسئلے پر شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ بڑے ڈیموں اور شجرکاری مہمات پر عملی اقدامات کب ہوں گے۔ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کو عالمی برادری کے سامنے ماحولیاتی انصاف کے مطالبے کو مزید مؤثر انداز میں اٹھانا چاہیے۔
ماحولیاتی بحران صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ براہِ راست پاکستان کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کو متاثر کر رہا ہے۔ زرعی پیداوار میں کمی کا مطلب ہے کہ خوراک کی قیمتیں مزید بڑھیں گی، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو نقصان برآمدات میں کمی کا سبب بنے گا، اور اس کا براہِ راست اثر زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑے گا۔
اس کے علاوہ پانی کی کمی شہروں اور دیہات میں تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔ صحت کے شعبے پر بھی دباؤ بڑھے گا کیونکہ ہیٹ ویوز اور سیلاب جیسی آفات میں اضافہ بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بنتا ہے۔
اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو 2030 تک پاکستان میں خوراک کا بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔ گندم اور چاول جیسی بنیادی فصلوں کی پیداوار میں نمایاں کمی سے ملک کو درآمدات پر انحصار بڑھانا پڑے گا۔
دوسری جانب، اگر حکومت نے مؤثر حکمتِ عملی اپنائی تو خشک سالی برداشت کرنے والے بیج، جدید آبپاشی نظام اور شجرکاری جیسے اقدامات پاکستان کو اس بحران سے نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ عالمی برادری کی جانب سے “لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ” کے تحت مالی امداد بھی مستقبل کی بحالی کے لیے کلیدی کردار ادا کرے گی۔
پاکستان کے لیے ماحولیاتی تبدیلی محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ بقاء، معیشت اور عوامی زندگی کا سوال ہے۔ یہ بحران روز بروز شدید تر ہوتا جا رہا ہے، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلوں کے لیے زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔
اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت، عوام اور عالمی برادری مل کر مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔ پاکستان کو ایک ایسا لائحہ عمل درکار ہے جو نہ صرف ماحول بلکہ معیشت اور معاشرتی استحکام کو بھی محفوظ بنا سکے۔