امریکی سیاست میں ایک بار پھر سوشل میڈیا مرکزِ بحث بن گیا ہے۔ اس بار معاملہ ٹک ٹاک کا ہے، جو نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبول پلیٹ فارمز میں شمار ہوتا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے باضابطہ طور پر اپنا ٹک ٹاک اکاؤنٹ لانچ کر کے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقصد نوجوان نسل سے براہِ راست جڑنا اور اپنی پالیسیوں کو تیزی سے عوام تک پہنچانا ہے، مگر ساتھ ہی قومی سلامتی کے خدشات نے بھی شدت اختیار کر لی ہے۔
منگل کی شام وائٹ ہاؤس کا آفیشل اکاؤنٹ @whitehouse ٹک ٹاک پر لانچ کیا گیا، جس پر پہلی ویڈیو اپ لوڈ ہوئی۔ اس ویڈیو میں صدر ٹرمپ کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا: “I am your voice”، جبکہ کیپشن میں درج تھا: “America we are BACK! What’s up TikTok?”۔
صدر ٹرمپ کا ٹک ٹاک کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 2024 کے صدارتی انتخابات میں نوجوان ووٹرز نے انہیں ٹک ٹاک کی وجہ سے سپورٹ کیا، جس کی بدولت وہ ڈیموکریٹ امیدوار کمالا ہیرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب انہوں نے بطور صدر بھی اس پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اپنے پیغامات براہِ راست 17 کروڑ امریکی صارفین تک پہنچا سکیں۔
🚨 BREAKING: President Trump’s White House officially launches its own TikTok account with an epic intro video. 🔥 pic.twitter.com/ArikzLoB4M
— Eric Daugherty (@EricLDaugh) August 19, 2025
خیال رہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران @realdonaldtrump نامی ٹک ٹاک اکاؤنٹ استعمال کیا تھا، جس پر اب بھی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ فالوورز موجود ہیں۔ اس کے باوجود، وائٹ ہاؤس کے نئے اکاؤنٹ کا آغاز اس بات کی علامت ہے کہ اب یہ پلیٹ فارم حکومتی سطح پر بھی سنجیدگی سے اپنایا جا رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولائن لیوٹ کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی یہ ہے کہ صدر کی کامیابیوں کو زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم میں ٹک ٹاک ایک اہم ہتھیار ثابت ہوا اور اب اسی کامیابی کو مزید آگے بڑھانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
ٹک ٹاک کی کہانی صرف ایک ایپ تک محدود نہیں بلکہ ایک سیاسی تنازع بھی ہے۔ 2024 میں امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا تھا جس کے مطابق ٹک ٹاک کو 19 جنوری 2025 تک اپنی امریکی شاخ فروخت کرنا تھی یا پھر امریکا میں کام بند کرنا تھا۔ اس فیصلے کی بنیاد وہ خدشات تھے جو امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ظاہر کیے تھے کہ ٹک ٹاک کی پیرنٹ کمپنی بائٹ ڈانس (ByteDance) چین کے زیرِ اثر ہے اور امریکی صارفین کے ڈیٹا کو استعمال کر سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدتِ صدارت شروع کرنے کے بعد اس قانون پر فوری عمل درآمد نہیں کیا بلکہ اس کی ڈیڈ لائن میں مسلسل توسیع کرتے رہے: پہلے اپریل، پھر جون 19 اور آخر میں ستمبر 17 تک۔ ان فیصلوں نے واشنگٹن میں کئی قانون سازوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا جو سمجھتے ہیں کہ قومی سلامتی کے معاملے پر نرم رویہ اپنانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ کی لانچ پر امریکی عوام اور سیاسی حلقوں میں ملے جلے ردعمل سامنے آئے ہیں۔
حامیوں کا ردعمل: ٹرمپ کے نوجوان سپورٹرز نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، یہ پلیٹ فارم نوجوانوں تک پہنچنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے اور صدر نے درست فیصلہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے لکھا کہ یہ “نیا دور کا صدارتی رابطہ” ہے۔
مخالفین کا ردعمل: ڈیموکریٹ قانون سازوں اور بعض ریپبلکنز نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وائٹ ہاؤس کو ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا جب تک ٹک ٹاک کے ملکیتی تنازع کا حل نہیں نکلتا۔ ان کے مطابق، یہ اقدام امریکی سلامتی کے خدشات کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
ماہرین کا مؤقف: سائبر سیکیورٹی ایکسپرٹس نے خبردار کیا ہے کہ اگر بائٹ ڈانس پر امریکی قوانین کا نفاذ نہ ہوا تو یہ پلیٹ فارم حساس ڈیٹا کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
یہ اقدام امریکی سیاست میں ایک نئی بحث کو جنم دے رہا ہے۔ ایک طرف ٹرمپ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ نوجوانوں کی آواز ہیں اور جدید ذرائع کو اپنانے میں پیچھے نہیں۔ دوسری طرف، ٹک ٹاک کا استعمال قومی سلامتی کے سوالات کو نظر انداز کرنے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔
سیاسی طور پر یہ فیصلہ ٹرمپ کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے کیونکہ 2024 کے انتخابات نے ثابت کیا کہ نوجوان ووٹرز کی طاقت جیت اور ہار کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ تاہم، اس سے امریکا اور چین کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر ڈیٹا سیکیورٹی کے معاملات پر کوئی بڑا اسکینڈل سامنے آیا۔
ٹک ٹاک پر وائٹ ہاؤس کے اکاؤنٹ کے آغاز کے کئی ممکنہ اثرات ہیں:
سیاسی اثرات: نوجوان ووٹرز کے ساتھ ٹرمپ کی براہِ راست انگیجمنٹ انہیں مزید مضبوط کر سکتی ہے۔
قانونی اثرات: اگر بائٹ ڈانس نے کانگریس کے قانون پر عمل نہ کیا تو مستقبل میں وائٹ ہاؤس پر دباؤ بڑھ سکتا ہے کہ وہ اس ایپ کو بین کرے۔
سماجی اثرات: یہ قدم دیگر عالمی رہنماؤں کے لیے بھی مثال بن سکتا ہے کہ کس طرح ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ لانچ ہونا صرف ایک سوشل میڈیا ایونٹ نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام ہے۔ یہ پیغام نوجوانوں کو ساتھ ملانے کا بھی ہے اور مخالفین کو یہ باور کرانے کا بھی کہ صدر ٹرمپ کسی بھی پلیٹ فارم کو اپنے بیانیے کے لیے استعمال کرنے سے نہیں جھجکتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ امریکا کی قومی سلامتی پر سمجھوتہ ثابت ہوگا یا نوجوانوں سے جڑنے کی ایک کامیاب حکمتِ عملی؟ اس کا جواب آنے والے وقت میں ملے گا۔