بھارت ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد آبادی والا ملک ہے، جہاں توانائی کی ضروریات روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ ایسے حالات میں دہلی حکومت کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کو سستا ایندھن کیسے فراہم کرے۔ حالیہ برسوں میں عالمی سیاست، معاشی پابندیوں اور جنگی حالات نے توانائی کی منڈی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ انہی حالات کے پس منظر میں بھارت کا روسی تیل پر بڑھتا انحصار نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بحث کا موضوع بن گیا ہے بلکہ امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کو بھی کشیدگی کی طرف لے جا رہا ہے۔
بھارت نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے تیل وہیں سے خریدے گا جہاں سے اسے سستا اور فائدہ مند سودا ملے۔ یہ مؤقف اس وقت مزید اہمیت اختیار کر گیا جب واشنگٹن نے روس سے تیل اور اسلحہ خریدنے والے ممالک پر سخت تجارتی جرمانے عائد کرنے کا اعلان کیا۔
ماسکو میں بھارتی سفیر ونے کمار نے ایک بیان میں کہا کہ بھارت کی تجارتی پالیسی مکمل طور پر قومی مفاد اور مارکیٹ کے اصولوں پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق بھارت کسی بھی دباؤ میں آکر اپنے فیصلے تبدیل نہیں کرے گا کیونکہ ملک کی اولین ترجیح اپنی عوام کو توانائی کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔
Indian companies will buy oil where it gets ‘best deal’: India’s envoy to Russia, days ahead of US tariff ‘penalty’ kicking in https://t.co/2rc48vszLg
— The Indian Express (@IndianExpress) August 25, 2025
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسی جلد نافذ ہونے والی ہے، جس کے تحت بھارت سمیت ان ممالک پر 50 فیصد تک اضافی ٹیکس عائد کیا جائے گا جو روس سے خام تیل یا دفاعی سازوسامان خریدتے ہیں۔ اس پالیسی کا مقصد روس پر دباؤ بڑھانا اور یوکرین جنگ کو ختم کرنے کے لیے ماسکو کو مجبور کرنا بتایا جا رہا ہے۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2021 میں بھارت کی مجموعی تیل درآمدات میں روس کا حصہ صرف 3 فیصد تھا، لیکن یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد 2024 میں یہ حصہ بڑھ کر 40 فیصد کے قریب جا پہنچا۔ یہ اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت نہ صرف روسی تیل پر انحصار بڑھا رہا ہے بلکہ عالمی توانائی کی منڈی میں اپنی الگ حکمتِ عملی بھی تشکیل دے رہا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی اس مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا یہ مؤقف غیر منصفانہ ہے کیونکہ واشنگٹن نے یورپی ممالک یا چین پر ایسے کوئی جرمانے نہیں لگائے جو روسی تیل کے بڑے خریدار ہیں۔ ان کے مطابق بھارت صرف اپنے عوام کے لیے بہتر فیصلہ کر رہا ہے اور کسی تیسرے ملک کی خوشنودی کے لیے اپنے قومی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
بھارت اور روس کے تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔ سرد جنگ کے دور سے ہی روس بھارت کا اہم دفاعی اور تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ اس دوران بھارت نے روس سے نہ صرف اسلحہ خریدا بلکہ توانائی کے شعبے میں بھی تعاون بڑھایا۔
یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد جب یورپی ممالک نے روسی توانائی پر پابندیاں لگائیں تو بھارت کے لیے ایک موقع پیدا ہوا کہ وہ رعایتی نرخوں پر روسی تیل خریدے۔ دہلی حکومت نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے توانائی کے بحران کو کسی حد تک کم کیا۔ تاہم اس فیصلے نے امریکہ اور بھارت کے تعلقات پر اثر ڈالا، کیونکہ واشنگٹن روس کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
امریکہ کی جانب سے نئی پالیسی کا اعلان ہوتے ہی بھارتی سیاسی حلقوں اور عوام میں مختلف ردعمل سامنے آیا۔ ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ بھارت کو امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے، جبکہ دوسرا مؤقف یہ ہے کہ بھارت کو اپنے عوام کی ضروریات کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔
سوشل میڈیا پر بھی اس مسئلے پر بڑی بحث جاری ہے۔ بہت سے صارفین نے حکومت کی تعریف کی کہ وہ امریکی دباؤ کے باوجود اپنے فیصلے پر قائم ہے، جبکہ کچھ لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہوئے تو بھارتی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
یہ معاملہ صرف توانائی تک محدود نہیں ہے بلکہ عالمی سیاست اور معیشت پر بھی گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ اگر بھارت روس سے تیل خریدتا رہا تو امریکہ کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات مزید تناؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کا اثر ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور دفاعی معاہدوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔
دوسری طرف، بھارت کے لیے روسی تیل چھوڑنا بھی آسان نہیں کیونکہ یہ رعایتی نرخوں پر میسر ہے اور ملکی معیشت کو سہارا دے رہا ہے۔ اس صورتحال نے بھارت کو ایک ایسے مقام پر کھڑا کر دیا ہے جہاں اسے توازن قائم رکھنا ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ اپنی پالیسی پر سختی سے عمل کرتا ہے تو بھارت کو متبادل مارکیٹیں تلاش کرنا ہوں گی۔ تاہم یہ اتنا آسان نہیں کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی قیمتیں زیادہ ہیں اور سپلائی بھی ہمیشہ مستحکم نہیں رہتی۔
دوسری جانب، اگر روس اور یوکرین کے درمیان کوئی امن معاہدہ طے پا گیا تو توانائی کی منڈی دوبارہ متوازن ہو سکتی ہے اور بھارت پر دباؤ کم ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امکان بھی ہے کہ بھارت اور امریکہ مذاکرات کے ذریعے درمیانی راستہ نکال لیں تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب نہ ہوں۔
بھارت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی توانائی کی پالیسی کو قومی مفاد کی بنیاد پر طے کرے گا، نہ کہ بیرونی دباؤ پر۔ یہ مؤقف اگرچہ عوامی سطح پر مقبول ہے لیکن عالمی سیاست میں اسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آنے والے مہینے یہ طے کریں گے کہ بھارت کس طرح امریکی دباؤ اور روسی رعایتی تیل کے درمیان توازن قائم رکھتا ہے۔