logo

نوواک جوکووچ کا مطالبہ: گرینڈ سلیم ایونٹس میں انعامی رقم کے نظام میں شفافیت اور بہتری کی ضرورت

نوواک جوکووچ

نوواک جوکووچ نے گرینڈ سلیم ٹینس ایونٹس میں انعامی رقم کے غیر مساوی نظام پر آواز اٹھائی اور کھلاڑیوں کے بہتر مستقبل کے لیے شفافیت کا مطالبہ کیا۔

دنیا کے سب سے کامیاب ٹینس کھلاڑیوں میں شمار ہونے والے نوواک جوکووچ ایک بار پھر کھیل کے سب سے بڑے پلیٹ فارم پر آواز بلند کر رہے ہیں۔ اس بار ان کی توجہ اپنی کامیابی یا ریکارڈز پر نہیں بلکہ انعامی رقم کے نظام پر ہے جو بظاہر بڑھ رہا ہے مگر اب بھی نچلے درجے کے کھلاڑیوں کے لیے ناکافی سمجھا جا رہا ہے۔ جوکووچ کا مؤقف ہے کہ اگر کھیل سے جڑا بزنس اربوں ڈالر کا ہے تو اس کا منصفانہ حصہ کھلاڑیوں کو ملنا چاہیے، خاص طور پر اُن کو جو اپنی روزی روٹی کے لیے ٹینس پر انحصار کرتے ہیں۔

نوواک جوکووچ، جو 24 مرتبہ کے گرینڈ سلیم چیمپئن ہیں، نے حالیہ میڈیا گفتگو میں کہا کہ اگرچہ یو ایس اوپن سمیت بڑے ایونٹس میں انعامی رقم میں اضافہ کیا گیا ہے، مگر یہ اضافہ اب بھی کھلاڑیوں کی توقعات سے کم ہے۔ ان کے مطابق ٹینس ایک ایسا کھیل ہے جس کی مارکیٹ ویلیو ہر سال بڑھ رہی ہے، لیکن کھلاڑیوں کو اس تناسب سے فائدہ نہیں دیا جا رہا۔

رواں سال یو ایس اوپن کے منتظمین نے اعلان کیا کہ انعامی فنڈ میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد یہ رقم تقریباً 90 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ بظاہر یہ ٹینس کی تاریخ کا سب سے بڑا انعامی فنڈ ہے، لیکن جوکووچ کا کہنا ہے کہ جب اس رقم کا موازنہ ایونٹس سے حاصل ہونے والی کمرشل آمدنی سے کیا جائے تو یہ اب بھی کھلاڑیوں کے لیے ناکافی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہ مطالبہ وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اُن کھلاڑیوں کی خاطر کر رہے ہیں جو عالمی رینکنگ میں نچلے درجے پر ہیں۔ ایسے کھلاڑی زیادہ تر اپنی آمدنی کے لیے گرینڈ سلیم ایونٹس پر انحصار کرتے ہیں، لیکن محدود انعامی رقم اور اخراجات کی زیادتی ان کے کیریئر کو متاثر کرتی ہے۔

جوکووچ کے بقول، ’’لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹاپ پلیئرز کے لیے ہی یہ بحث کی جا رہی ہے، لیکن اصل مسئلہ اُن ہزاروں کھلاڑیوں کا ہے جو ٹورنامنٹس کھیلنے کے باوجود مالی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ گرینڈ سلیم ایونٹس کو چاہیے کہ وہ اپنی بڑھتی ہوئی ریونیو پالیسی کے مطابق کھلاڑیوں کو بہتر حصہ فراہم کریں۔

پس منظر

یہ پہلا موقع نہیں کہ ٹینس کے انعامی نظام پر سوالات اٹھے ہوں۔ گزشتہ کئی برسوں سے کھلاڑیوں اور منتظمین کے درمیان انعامی رقم کے حوالے سے اختلافات سامنے آتے رہے ہیں۔ خاص طور پر 2010 کے بعد سے کھلاڑیوں نے کئی بار مطالبہ کیا کہ ٹکٹ سیلز، ٹی وی رائٹس اور اسپانسر شپ سے حاصل ہونے والے اربوں ڈالرز میں ان کا حصہ زیادہ ہونا چاہیے۔

جوکووچ نے 2020 میں پروفیشنل ٹینس پلیئرز ایسوسی ایشن (PTPA) قائم کی تھی تاکہ کھلاڑیوں کے حقوق کے لیے مؤثر پلیٹ فارم میسر آئے۔ اس تنظیم نے بڑے ٹینس اداروں، جیسے ATP اور WTA پر الزام عائد کیا کہ وہ کھلاڑیوں کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ رکھتے ہیں اور فیصلہ سازی میں ان کی شمولیت محدود کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ، مہنگائی اور ٹورنامنٹ اخراجات میں اضافے نے بھی کھلاڑیوں کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے۔ کئی نوجوان کھلاڑی صرف سفر، کوچنگ اور تربیت کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہتے ہیں، جبکہ ایونٹس سے حاصل ہونے والی انعامی رقم ان کے اخراجات کا بمشکل احاطہ کرتی ہے۔

ردعمل

اس بیان کے بعد کھیلوں کے حلقوں اور سوشل میڈیا پر مختلف آراء سامنے آئیں۔ کئی شائقین نے جوکووچ کی حمایت کی اور کہا کہ ٹینس جیسے بڑے کھیل میں کھلاڑیوں کو مالی طور پر محفوظ ہونا چاہیے۔ کچھ صارفین نے یہ نکتہ اٹھایا کہ اگر کرکٹ اور فٹبال میں کھلاڑی کثیر معاوضے لے سکتے ہیں تو ٹینس میں بھی ایسا ہونا چاہیے۔

ماہرین نے کہا کہ جوکووچ کی بات حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ زیادہ تر ریونیو صرف بڑے ناموں یا ٹورنامنٹ آرگنائزرز تک محدود رہتا ہے۔ بعض ناقدین نے تاہم یہ مؤقف اپنایا کہ ٹینس ایک انفرادی کھیل ہے اور ہر کھلاڑی کو اپنی مارکیٹ ویلیو کے مطابق ہی معاوضہ ملتا ہے۔

سیاسی و سماجی حلقوں میں بھی یہ بحث ہوئی کہ کھیلوں کو صرف تفریح کے بجائے ایک مکمل انڈسٹری کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جس میں مزدوروں (کھلاڑیوں) کے حقوق کی ضمانت ہونی چاہیے۔

تجزیہ

اگرچہ انعامی رقم میں بتدریج اضافہ کیا جا رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اضافہ کھلاڑیوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کافی ہے؟ ٹینس کا کمرشل بزنس ہر سال اربوں ڈالر کا ہوتا ہے، جس میں اسپانسر شپ، براڈکاسٹ رائٹس اور ٹکٹ سیلز شامل ہیں۔ اس کے باوجود زیادہ تر کھلاڑی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔

یہ مسئلہ صرف کھیل تک محدود نہیں بلکہ یہ مجموعی معاشی ڈھانچے کی بھی عکاسی کرتا ہے جہاں زیادہ تر وسائل طاقتور اداروں یا چند نمایاں ناموں تک محدود ہو جاتے ہیں۔ اگر انعامی رقم میں شفافیت اور منصفانہ تقسیم نہ ہوئی تو مستقبل میں مزید اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔

مستقبل پر اثرات

اگر جوکووچ اور دیگر کھلاڑیوں کا مطالبہ تسلیم کر لیا جاتا ہے تو ٹینس کا معاشی ڈھانچہ بدل سکتا ہے۔ زیادہ انعامی رقم نچلے درجے کے کھلاڑیوں کے لیے حوصلہ افزا ہوگی اور نئے ٹیلنٹ کو عالمی سطح پر ابھرنے کا موقع ملے گا۔

دوسری جانب، اگر یہ مطالبات مسلسل نظر انداز کیے گئے تو کھلاڑیوں اور منتظمین کے درمیان فاصلہ مزید بڑھے گا۔ اس کے نتیجے میں بائیکاٹ، ہڑتال یا نئے متبادل ٹورنامنٹس کے امکانات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

اختتامیہ

نوواک جوکووچ کا یہ مطالبہ صرف ایک کھلاڑی کی آواز نہیں بلکہ ہزاروں ٹینس پلیئرز کی نمائندگی کرتا ہے جو اس کھیل کو اپنی زندگی کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔ ٹینس کو اگر واقعی عالمی کھیل بنانا ہے تو اس میں انعامی رقم اور وسائل کی تقسیم کو شفاف اور منصفانہ بنانا ضروری ہے۔ جوکووچ کی بات ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ کھیل صرف میدان میں جیتنے کا نام نہیں بلکہ کھلاڑیوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کا بھی تقاضا کرتا ہے۔