logo

بروس ولِس کی بیماری: ایما ہیمنگ ولِس کا دردناک انکشاف اور انسانیت کے لیے سبق

بروس ولِس کی بیماری

بروس ولِس کی بیماری پر ان کی اہلیہ ایما ہیمنگ ولِس کے انکشافات نے دنیا کو چونکا دیا۔ جانئے کیسے یہ کہانی انسانیت اور حوصلے کی ایک مثال بن گئی۔

بروس ولِس کی بیماری ایک ایسا موضوع ہے جس نے مداحوں، ڈاکٹروں اور عام لوگوں کو یکساں طور پر متاثر کیا ہے۔ ہالی وُڈ کے مشہور اداکار کی اہلیہ ایما ہیمنگ ولِس نے حال ہی میں ایک جذباتی انٹرویو میں بتایا کہ بروس کی ذہنی صحت تیزی سے زوال پذیر ہے، اور ان کے ساتھ زندگی کا سفر اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔

امریکی اداکار بروس ولِس، جنہوں نے ڈائی ہارڈ اور دی سکس سینس جیسی فلموں سے عالمی شہرت حاصل کی، اب فرنٹو ٹیمپورل ڈیمینشیا کے چیلنج سے نبرد آزما ہیں۔ ان کی عمر ستر برس ہے، اور تین سال قبل ان میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی تھی۔ اس بیماری میں دماغ کے وہ حصے متاثر ہوتے ہیں جو سوچ، رویے اور زبان کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

ایما ہیمنگ ولِس نے امریکی چینل اے بی سی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ بروس کا جسم تو اب بھی فعال ہے، مگر دماغی صلاحیت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا، “اب ہم ایک نئے انداز سے بات چیت کرتے ہیں۔ یہ وہ عام گفتگو نہیں جو پہلے ہوتی تھی، بلکہ ایک غیر لفظی رابطہ ہے جو احساس اور محبت سے جڑا ہوا ہے۔”

انہوں نے مزید بتایا کہ بروس کی موجودگی ان کے لیے اب بھی ایک نعمت ہے۔ “کبھی کبھی ان کی آنکھوں میں وہ پرانی چمک جھلک جاتی ہے، ایک لمحے کے لیے وہی پرانا بروس نظر آتا ہے، اور پھر وہ لمحہ گزر جاتا ہے۔” ایما کے مطابق، یہ سفر تکلیف دہ ضرور ہے، مگر اس میں شکرگزاری اور سیکھنے کے بے شمار پہلو موجود ہیں۔

انٹرویو کے دوران ایما نے اپنی نئی کتاب “Unexpected Journey: Finding Strength, Hope, and Yourself on the Caregiving Path” کا ذکر بھی کیا۔ یہ کتاب اُن لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے جو اپنے پیاروں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور تنہائی، خوف یا مایوسی سے گزر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “جب میں نے دوسروں سے مدد مانگی، تب مجھے احساس ہوا کہ یہ بوجھ اکیلے اٹھانا ممکن نہیں۔”

پس منظر

2023 میں بروس ولِس کے خاندان نے عوام کو بتایا تھا کہ وہ فرنٹو ٹیمپورل ڈیمینشیا کے مریض ہیں۔ ابتدا میں مداحوں کے لیے یہ خبر کسی جھٹکے سے کم نہیں تھی، کیونکہ بروس ایکشن فلموں کے علامتی کرداروں میں شمار ہوتے تھے۔

یہ بیماری عام طور پر 45 سے 65 سال کی عمر میں ظاہر ہوتی ہے، مگر اس کا علاج ابھی ممکن نہیں۔ برطانیہ کی الزائمر ریسرچ تنظیم کے مطابق، صرف برطانیہ میں ہی 30 ہزار سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) کے مطابق، یہ بیماری زبان، رویے اور یادداشت کو متاثر کرتی ہے، جس کے باعث مریض آہستہ آہستہ اپنے اردگرد کی دنیا سے دور ہوتا جاتا ہے۔

بروس ولِس کے کیریئر کو دیکھیں تو وہ ہمیشہ مضبوط، بہادر اور ذہین کرداروں میں نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کے مداحوں نے ان کی بیماری کی خبر سنی تو ہر دل غمگین ہوا۔ ان کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل تھا کہ وہ ہیرو جو فلموں میں کبھی ہارا نہیں، اصل زندگی میں اتنے بڑے امتحان سے گزر رہا ہے۔

ردعمل

ایما ہیمنگ ولِس کے انکشافات کے بعد دنیا بھر سے ہمدردی کے پیغامات کی لہر دوڑ گئی۔ سوشل میڈیا پر مداحوں نے لکھا، “بروس ولِس ہماری نسل کے ہیرو ہیں، اور اب وہ حقیقی زندگی کے ہیرو بن چکے ہیں جو خاموشی سے لڑ رہے ہیں۔”

الزائمرز ریسرچ یو کے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سمانتھا بینہم-ہرمٹز نے ایما کے فیصلے کو “جرأت مندانہ اور متاثرکن” قرار دیا۔ ان کے مطابق، ایما کی صاف گوئی ہزاروں خاندانوں کو حوصلہ دے گی جو اسی مرض سے گزر رہے ہیں۔

ہالی وُڈ کے متعدد اداکاروں نے بھی بروس ولِس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ اداکار جان ٹریولٹا نے ایک انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا: “بروس میرا بھائی ہے۔ وہ ہمیشہ بہادر رہا ہے، اور مجھے یقین ہے وہ اس مرحلے کو بھی عزت و وقار سے گزارے گا۔”

تجزیہ

ایما کے بیان نے ایک ایسے موضوع کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے جس پر عام طور پر کم بات کی جاتی ہے — ڈیمینشیا اور ذہنی زوال۔ بروس ولِس کی بیماری صرف ایک مشہور شخصیت کی کہانی نہیں، بلکہ یہ دنیا بھر کے ان لاکھوں خاندانوں کی نمائندگی کرتی ہے جو روزانہ اس آزمائش سے گزرتے ہیں۔

یہ معاملہ سماجی سطح پر ہمدردی اور فہم کی نئی فضا قائم کر رہا ہے۔ لوگ اب زیادہ سنجیدگی سے ذہنی صحت کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بروس ولِس کی مثال نے معاشرے میں آگاہی پیدا کی ہے کہ دماغی امراض صرف عمر رسیدہ افراد تک محدود نہیں، بلکہ ہر شخص کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

فلم انڈسٹری میں بھی یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ اداکاروں اور تخلیقی افراد کے لیے ذہنی صحت کی معاونت کیسے بہتر کی جائے۔ بروس ولِس کی بیماری ایک یاد دہانی ہے کہ شہرت اور دولت کے باوجود انسان کمزور ہو سکتا ہے، مگر حوصلہ اور محبت اسے قائم رکھتے ہیں۔

مستقبل کے اثرات

ماہرین کے مطابق، بروس ولِس کی بیماری پر بڑھتی ہوئی توجہ مستقبل میں ڈیمینشیا ریسرچ کے لیے نئے راستے کھول سکتی ہے۔ ایما کی کتاب اور ان کی مہم “Caregiver Support” کئی بین الاقوامی تنظیموں کے لیے مثال بن رہی ہے۔

امید ہے کہ آنے والے برسوں میں اس بیماری کی بہتر تشخیص اور علاج کے طریقے سامنے آئیں گے۔ متعدد ریسرچ سینٹرز نے اعلان کیا ہے کہ وہ فرنٹو ٹیمپورل ڈیمینشیا پر تحقیق بڑھائیں گے تاکہ مستقبل کے مریضوں کے لیے بہتر حل نکالا جا سکے۔

سماجی طور پر بھی، اس واقعے نے لوگوں میں یہ احساس بیدار کیا ہے کہ دیکھ بھال صرف ایک ذمہ داری نہیں بلکہ ایک انسانی فریضہ ہے۔ ایما ولِس کی کہانی نے دنیا کو یہ سکھایا ہے کہ محبت صرف خوشیوں میں نہیں، بلکہ آزمائشوں میں بھی پروان چڑھتی ہے۔

اختتامیہ

بروس ولِس کی بیماری نے ایک بار پھر یاد دلایا ہے کہ زندگی کا سب سے بڑا امتحان وہ نہیں جو ہم پردے پر دیکھتے ہیں، بلکہ وہ ہے جو ہم دل کے اندر لڑتے ہیں۔ ایما ہیمنگ ولِس نے جس طرح اپنے شوہر کے ساتھ وفاداری، صبر اور ہمت کا مظاہرہ کیا، وہ انسانیت کے لیے ایک روشن مثال ہے۔

یہ کہانی صرف ایک اداکار کی نہیں، بلکہ ہر اُس شخص کی ہے جو کسی پیارے کو کھوئے بغیر اُس کے لیے جیتا ہے۔ بروس ولِس آج بھی ہمارے دلوں میں ایک ہیرو ہیں — اور اب وہ ایک ایسے ہیرو بن چکے ہیں جو خاموشی سے لڑتے ہوئے بھی دوسروں کو جینے کا حوصلہ دے رہے ہیں۔