logo

ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیریف غیر قانونی قرار — امریکی عدالت کے فیصلے سے صدارتی اختیارات پر نیا بحران

ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیریف

ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیریف غیر قانونی قرار، امریکی عدالت کے فیصلے نے صدارتی اختیارات، تجارت اور خارجہ پالیسی پر نئی بحث چھیڑ دی۔

امریکہ میں ایک تازہ عدالتی فیصلہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیریف پالیسی کے لیے زبردست دھچکا بن گیا ہے۔ اپیلز کورٹ نے ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے بیشتر تجارتی محصولات کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف ان کی معاشی پالیسی بلکہ صدارتی اختیارات کی حدوں پر بھی سوال اٹھ گئے ہیں۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ انتخابی موسم میں داخل ہو رہا ہے اور ٹرمپ دوبارہ صدارتی دوڑ میں ہیں۔ اس فیصلے نے سیاسی فضا کو مزید گرم کر دیا ہے، جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیس امریکی آئینی نظام کے لیے ایک تاریخی موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔

فیڈرل اپیلز کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ٹرمپ کے عائد کردہ بیشتر ٹیریف ’’قانون کے منافی‘‘ اور ’’صدر کے اختیارات سے تجاوز‘‘ تھے۔ عدالت کے مطابق ٹیکس اور محصولات عائد کرنے کا اختیار صرف کانگریس کے پاس ہے، صدر کے پاس نہیں۔
یہ فیصلہ چین، میکسیکو اور کینیڈا پر لگائے گئے ٹیریف سمیت ٹرمپ کی “ریسی پروکل” پالیسی پر بھی لاگو ہوتا ہے، جو ان کے دورِ حکومت کی اہم معاشی حکمت عملیوں میں شامل تھی۔

عدالت نے وضاحت کی کہ یہ فیصلہ 14 اکتوبر تک مؤخر العمل رہے گا تاکہ موجودہ حکومت کو سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا موقع مل سکے۔ اگر سپریم کورٹ اس کیس کو سماعت کے لیے منظور کرتی ہے تو یہ امریکی صدارتی اختیارات کے حوالے سے ایک بڑا آئینی امتحان بن سکتا ہے۔

فیصلہ سامنے آتے ہی ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ایپ ’ٹروتھ سوشل‘ پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا، “یہ فیصلہ سیاسی ہے، اگر یہ برقرار رہا تو یہ امریکہ کو تباہ کر دے گا۔” ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ ٹیریف ختم ہوئے تو امریکی معیشت کمزور ہو جائے گی اور چین جیسے ممالک مضبوط ہو جائیں گے۔

ٹیریف پالیسی اور قانونی جواز کی کہانی

ٹرمپ نے اپنے دورِ حکومت میں ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کے نعرے کے تحت متعدد معاشی اقدامات کیے تھے، جن میں تجارتی معاہدوں کی ازسرنو تشکیل اور درآمدی محصولات میں اضافہ نمایاں تھا۔
انہوں نے اپریل 2020 میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے تقریباً تمام ممالک پر 10 فیصد ٹیریف عائد کیا تھا اور اسے “آزادی کا دن” قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر متوازن تجارت امریکی صنعت اور روزگار کے لیے خطرہ ہے۔

قانونی طور پر ٹرمپ نے ان اقدامات کو “انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ” (IEEPA) کے تحت جائز قرار دیا۔ یہ قانون صدر کو ہنگامی حالات میں اقتصادی پابندیاں لگانے کا اختیار دیتا ہے، لیکن عدالت کے مطابق یہ اختیارات “ٹریڈ ٹیریف” پر لاگو نہیں ہوتے۔
عدالت نے 127 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ “IEEPA صدر کو معاشی خطرات سے نمٹنے کے اختیارات تو دیتا ہے، لیکن ٹیکس یا محصولات عائد کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔”

سیاسی و عوامی ردعمل

اس فیصلے نے امریکی سیاست میں نئی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ ریپبلکن رہنماؤں نے اسے ’’سیاسی انتقام‘‘ قرار دیا، جب کہ ڈیموکریٹس نے کہا کہ عدالت نے بالآخر قانون کی حکمرانی کو بحال کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر صارفین کی بڑی تعداد نے سوال اٹھایا کہ اگر صدر اپنے مفاد کے مطابق معاشی پالیسیاں لاگو کر سکتے ہیں تو پھر کانگریس کا کردار کیا رہ جاتا ہے؟

دوسری جانب کاروباری طبقے میں ملا جلا ردعمل دیکھا گیا۔ کچھ تاجروں نے عدالت کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا، کیونکہ ان کے مطابق ٹیریف سے درآمدات مہنگی اور کاروبار غیر مستحکم ہو گئے تھے۔ تاہم اسٹیل اور ایلومینیم کی صنعتوں نے کہا کہ ان کے شعبے کو ان ٹیریف سے تحفظ ملا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ فیصلے کے بعد معاشی ماہرین اس بات پر متفق نہیں کہ اس فیصلے کا مجموعی اثر امریکی معیشت پر مثبت ہوگا یا منفی۔

صدارتی اختیارات اور معیشت پر ممکنہ اثرات

یہ فیصلہ امریکی آئینی نظام کے ایک بنیادی سوال کو نمایاں کرتا ہے: کیا صدر معاشی ہنگامی حالات میں خود سے ٹیکس پالیسی بنا سکتا ہے؟
عدالت کا مؤقف واضح ہے — ٹیکس پالیسی صرف کانگریس کی منظوری سے نافذ ہو سکتی ہے۔
یہ مؤقف مستقبل میں صدر کے لیے کئی پالیسی اقدامات پر قدغن ثابت ہو سکتا ہے، خصوصاً وہ فیصلے جو اقتصادی ہنگامی حالت کے نام پر کیے جائیں۔

اگر سپریم کورٹ بھی اپیلز کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو یہ امریکی صدارت کے لیے تاریخی موڑ ثابت ہو گا۔ ٹرمپ کے علاوہ آئندہ صدور کو بھی ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے معاشی اقدامات کرنے میں شدید قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وائٹ ہاؤس کے وکلاء نے عدالت میں خبردار کیا تھا کہ یہ فیصلہ 1929 جیسے مالی بحران کا سبب بن سکتا ہے۔ لیکن عدالت نے کہا کہ “اختیارات کی حد بندی” آئینی اصول کا بنیادی ستون ہے۔

آئندہ منظرنامہ

اب تمام نگاہیں امریکی سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں۔ اگر وہ اس کیس کو سماعت کے لیے منظور کرتی ہے، تو یہ آنے والے برسوں میں صدارتی اختیارات اور کانگریسی طاقت کے درمیان ایک تاریخی قانونی جنگ ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ کیس صرف تجارت یا ٹیکس پالیسی کا نہیں بلکہ طاقت کے توازن کا ہے — وہ توازن جو امریکی آئین کی بنیاد ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ ٹرمپ کے خلاف فیصلہ برقرار رکھتی ہے، تو مستقبل میں کوئی بھی صدر “ہنگامی معاشی اقدامات” کے نام پر یکطرفہ فیصلے نہیں کر سکے گا۔
یہ امریکی سیاست میں اختیارات کی نئی تشریح کا آغاز ہو سکتا ہے، جو دنیا بھر میں صدارتی نظام رکھنے والے ممالک کے لیے بھی ایک مثال بنے گا۔

اختتامی تجزیہ

ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیریف کیس نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ جمہوریت میں اختیارات کا غلط استعمال دیرپا نہیں رہ سکتا۔ عدالت نے واضح پیغام دیا ہے کہ معاشی یا خارجہ پالیسی کے نام پر آئین کی حدود پار نہیں کی جا سکتیں۔
یہ فیصلہ امریکی تاریخ کے ان چند اہم لمحات میں شامل ہو سکتا ہے جب عدالت نے طاقتور صدر کو یاد دلایا کہ وہ قانون سے بالاتر نہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس کیس میں کیا رخ اختیار کرتی ہے — کیا وہ عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھے گی یا ٹرمپ کے مؤقف کو تسلیم کرے گی؟
جو بھی نتیجہ نکلے، ایک بات طے ہے: ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیریف کے معاملے نے امریکی سیاست، معیشت اور آئینی ڈھانچے کو ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔