اتوار کے روز پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔ موسمی ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ 16 سے 19 ستمبر تک مون سون کا گیارہواں اسپیل ملک کے بیشتر حصوں میں برسے گا۔ پشاور، چترال، سوات اور مانسہرہ میں لینڈ سلائیڈنگ کے خدشے کے پیش نظر ایڈوائزری بھی جاری کر دی گئی ہے۔
پنجاب پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کے مطابق جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع میں سیلابی ریلے نے تباہی مچا دی ہے۔ جلالپور پیر والا کے قریب ایم فائیو موٹر وے کا ایک حصہ پانی کے کٹاؤ سے متاثر ہوا جسے عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے متبادل راستے فراہم کیے ہیں، جبکہ سیلابی پانی روکنے کے لیے بوریوں اور عارضی بند باندھنے کا عمل جاری ہے۔
ملتان، رحیم یار خان، وہاڑی اور راجن پور کے کئی دیہات زیرِ آب ہیں۔ سینکڑوں گھر تباہ، ہزاروں ایکڑ فصلیں برباد، اور متعدد سڑکیں بہہ چکی ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے کے تین بڑے دریا — چناب، راوی اور ستلج — کے کنارے تقریباً 4,700 دیہات متاثر ہو چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں 372 ریلیف کیمپ، 459 میڈیکل کیمپ اور 391 ویٹرنری مراکز قائم کر دیے گئے ہیں۔
صورتحال انتہائی خطرناک ہوگئی
سیلاب متاثرین بڑی مشکل میں#Punjab #Flood #Pakistan #Emergency #BreakingNews #GTVNews pic.twitter.com/o4MqNdB8xn— GTV News HD (@GTVNewsPk) September 14, 2025
پنجند بیراج پر پانی کی سطح میں کمی دیکھی جا رہی ہے، تاہم سندھ میں گڈو بیراج پر اخراج 6,27,000 کیوسک سے تجاوز کر چکا ہے جو خطرناک حد ہے۔ کشمور، گھوٹکی، شکارپور اور سکھر کے دیہات سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ دریائے سندھ کے کنارے کھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں، جب کہ کچے کے علاقے مکمل طور پر زیرِ آب آ چکے ہیں۔
پاکستان میں مون سون کا موسم ہر سال جون سے ستمبر تک جاری رہتا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں نے بارشوں کے پیٹرن کو غیر متوقع بنا دیا ہے۔ پچھلے سال کے تباہ کن سیلاب نے 33 ملین سے زائد افراد کو متاثر کیا تھا، جس کی بازگشت ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔
اس سال بھی بارشوں کا آغاز نسبتاً جلد ہوا، اور ابتدائی اسپیلز کے دوران ہی کئی علاقوں میں جانی و مالی نقصان رپورٹ ہوا۔ ماہرین کے مطابق ڈیمز، نکاسی آب کے نظام، اور شہری منصوبہ بندی میں سستی نے خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
سیلابی صورتحال کے پیشِ نظر پاک بحریہ، فوج اور سول ڈیفنس کی ٹیموں نے ریلیف آپریشن تیز کر دیا ہے۔ ہوورکرافٹ، ریسکیو بوٹس اور ڈرونز کے ذریعے پانی میں پھنسے شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سکھر بیراج کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پہلے سے ہنگامی اقدامات کیے ہیں اور اگر 7,00,000 کیوسک پانی بھی گزرتا ہے تو انتظامیہ تیار ہے۔ دوسری جانب پنجاب کے ریلیف کمشنر نبیل جاوید نے بتایا کہ موجودہ لہر میں 104 اموات ہو چکی ہیں، جب کہ 46 لاکھ شہری براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل بھی شدید ہے۔ شہریوں نے ضلعی حکومتوں سے بہتر پیش بندی اور بروقت انخلا کے اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ کئی صارفین نے کہا کہ ہر سال کی طرح اس بار بھی تباہی کے بعد ردعمل سامنے آیا، پہلے سے کوئی جامع منصوبہ بندی نظر نہیں آئی۔
پاکستان میں سیلاب صرف قدرتی آفت نہیں رہا، بلکہ یہ ناقص منصوبہ بندی، غیر پائیدار تعمیرات، اور ماحولیات سے عدم ہم آہنگی کا نتیجہ بھی ہے۔ اگرچہ حکومتیں بارہا حفاظتی اقدامات کا اعلان کرتی ہیں، مگر زمینی حقائق اکثر اس کے برعکس ہوتے ہیں۔
اس مرتبہ صورتحال مزید سنگین اس لیے ہے کہ بڑے ڈیم — منگلا اور تربیلا — تقریباً اپنی مکمل گنجائش تک بھر چکے ہیں۔ بھارت کے بھاکڑا، پونگ اور تھین ڈیمز بھی خطرناک سطح کے قریب ہیں، جس کا مطلب ہے کہ کسی بھی وقت اضافی پانی چھوڑنے سے پاکستان کے دریا مزید بھاری دباؤ میں آ سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہی رجحان جاری رہا تو فصلوں، مویشیوں اور دیہی معیشت کو طویل مدتی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں کسانوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
آنے والے دنوں میں اگر بارشوں کا سلسلہ جاری رہا تو سندھ کے نشیبی علاقے اور بلوچستان کے شمالی اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ اگلے 72 گھنٹے صورتحال کے لحاظ سے نہایت اہم ہیں۔
حکومت نے تمام صوبائی انتظامیہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ ہنگامی مشینری تیار رکھیں، نکاسی آب کے راستے کھلے رکھیں، اور ریلیف کیمپوں میں ادویات و خوراک کا ذخیرہ یقینی بنائیں۔ اگر یہ اقدامات مؤثر طریقے سے نافذ ہو گئے تو جانی نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔
طویل المدتی طور پر ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بارشوں اور سیلابی نظام کو “ڈیجیٹل وارننگ ماڈلز” سے جوڑنا ہوگا، تاکہ کسی بھی خطرے سے قبل عوام کو بروقت آگاہ کیا جا سکے۔
آخرکار پاکستان میں مون سون کی نئی لہر نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ قدرتی آفات کے مقابلے کے لیے صرف الرٹ جاری کرنا کافی نہیں۔ مؤثر منصوبہ بندی، مضبوط انفراسٹرکچر، اور عوامی آگاہی ہی وہ عوامل ہیں جو جانی و مالی نقصان کو کم کر سکتے ہیں۔
اگر حکومتیں اور عوام مشترکہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو آنے والے برسوں میں پاکستان ان تباہ کن مناظر سے بچ سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، ہر مون سون کے ساتھ وہی کہانی دہرائی جائے گی — پانی بڑھے گا، لوگ ڈوبیں گے، اور ہم صرف گننے کے لیے رہ جائیں گے۔