logo

قطر پر اسرائیلی حملہ — مشرقِ وسطیٰ میں امن کی آخری امید بھی خطرے میں؟

قطر پر اسرائیلی حملہ

قطر پر اسرائیلی حملہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی لہر لے آیا۔ عرب ممالک کے شدید ردعمل نے خطے کے امن پر گہرے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

قطر پر اسرائیلی حملہ نہ صرف ایک فوجی کارروائی تھی بلکہ خطے کے سیاسی توازن کو ہلا دینے والا واقعہ بھی بن گیا۔ دوحہ کی پرسکون فضا میں اچانک گونجنے والے دھماکوں نے عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسرائیل کے مطابق یہ حملہ ’’دفاعی کارروائی‘‘ تھا، مگر عرب ممالک اسے ’’جارحیت اور خودمختاری پر حملہ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ، جو پہلے ہی بحرانوں کا شکار ہے، کیا اب ایک نئے طوفان کی زد میں آنے والا ہے؟

گزشتہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیلی فضائی کارروائی نے عالمی سیاست میں ہلچل مچا دی۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ’’حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے‘‘ کے لیے کیا گیا، لیکن اس حملے میں نہ صرف حماس کے چند نمائندے جاں بحق ہوئے بلکہ ایک قطری سکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوا۔ قطر نے فوری طور پر اس کارروائی کو ’’غیر قانونی اور غیر انسانی‘‘ قرار دیا۔

اسرائیلی دفترِ وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ کارروائی مکمل طور پر اسرائیل کی تھی اور اس میں کسی دوسرے ملک کا ہاتھ نہیں تھا۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وضاحت دی کہ یہ فیصلہ نیتن یاہو نے خود کیا، امریکہ کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ قطر امریکہ کا اہم اتحادی ہے اور اس کی خودمختاری کا احترام ضروری ہے۔

یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب قطر مشرقِ وسطیٰ میں مذاکراتی عمل کے لیے ایک اہم ثالثی کردار ادا کر رہا تھا۔ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں حماس اور دیگر فلسطینی رہنما شریک تھے۔ اسی تناظر میں یہ حملہ نہ صرف ایک عسکری واقعہ بلکہ ایک سفارتی دھچکا بھی سمجھا جا رہا ہے۔

پس منظر

قطر گزشتہ چند برسوں سے مشرقِ وسطیٰ میں ثالثی اور امن مذاکرات کی مرکزِ نگاہ رہا ہے۔ افغانستان، ایران، اور فلسطین کے معاملات میں قطر نے بارہا ثالثی کردار ادا کیا۔ قطر میں موجود امریکی فضائی اڈہ ’’العودید‘‘ بھی خطے کی دفاعی پالیسیوں میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

تاہم اسرائیل اور قطر کے درمیان تعلقات کبھی بھی گرمجوش نہیں رہے۔ اگرچہ قطر نے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں رکھے، لیکن اس نے انسانی بنیادوں پر فلسطین کے لیے امدادی منصوبوں میں کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دوحہ میں حماس کے سیاسی دفتر کی موجودگی اسرائیل کے لیے ہمیشہ ایک حساس معاملہ رہا۔

یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے کسی عرب ملک میں اپنے ’’ہدفی حملے‘‘ کیے ہوں، مگر قطر پر حملہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہ ایک خودمختار اور غیر متنازع ملک پر کیا گیا — جو عالمی سطح پر امن اور سفارتکاری کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔

ردِعمل

عرب اور اسلامی ممالک نے اس حملے کے بعد فوری طور پر ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ اجلاس کے مسودے میں اسرائیل کی کارروائیوں کو ’’نسلی تطہیر اور نسل کشی‘‘ قرار دیا گیا۔ سعودی عرب، ترکی، ایران، اور پاکستان سمیت کئی ممالک نے اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کہا۔

قطر کے وزیرِاعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن بن جاسم آل ثانی نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ ’’دوہرے معیار‘‘ کا خاتمہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل کو جواب دہ نہ بنایا گیا تو خطے میں امن کا قیام محض خواب بن کر رہ جائے گا۔

سوشل میڈیا پر بھی شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ ہیش ٹیگز #QatarUnderAttack اور #StopIsraeliAggression چند گھنٹوں میں دنیا بھر میں ٹرینڈ کرنے لگے۔ مختلف عالمی شخصیات اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا کہ قطر پر حملہ دراصل اس پیغام کا اشارہ ہے کہ کوئی بھی ملک اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں۔

تجزیہ

یہ حملہ محض ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ خطے کے سیاسی توازن پر گہرا اثر ڈالنے والا واقعہ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل نے یہ حملہ اس وقت کیا جب عالمی برادری کی توجہ غزہ جنگ سے ہٹنے لگی تھی۔ قطر پر حملہ کر کے اسرائیل نے بظاہر حماس کو کمزور کرنے کی کوشش کی، مگر اس کے نتیجے میں اس نے اپنے لیے مزید دشمن پیدا کر لیے ہیں۔

امریکی پالیسی بھی اس معاملے میں الجھن کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف وہ اسرائیل کو اپنا قریبی اتحادی قرار دیتا ہے، دوسری طرف قطر کو خطے میں امن کے لیے اہم شراکت دار مانتا ہے۔ ایسے میں دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا امریکی سفارتکاری کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق اس واقعے نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے کردار پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں کہ آخر کب تک عالمی برادری ایسے حملوں پر محض مذمتی بیانات تک محدود رہے گی۔

ممکنہ اثرات اور آئندہ صورتحال

قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی لہر پیدا ہو چکی ہے۔ اگر خطے کے بڑے ممالک نے سفارتی دباؤ کے ذریعے صورتحال قابو میں نہ رکھی تو یہ تنازع مزید پھیل سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق قطر، امریکہ، اور اسرائیل کے تعلقات میں وقتی سرد مہری ممکن ہے۔ قطر مستقبل میں اپنے دفاعی معاہدوں اور علاقائی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، عرب لیگ کی سطح پر بھی ممکن ہے کہ اسرائیل کے خلاف مشترکہ قرارداد منظور کی جائے۔

یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایران اور ترکی جیسے ممالک قطر کے ساتھ زیادہ مضبوط تعلقات قائم کریں گے، جس سے خطے میں نئی جغرافیائی صف بندی جنم لے سکتی ہے۔

اختتامیہ

قطر پر اسرائیلی حملہ صرف ایک فوجی کارروائی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے امن کے لیے ایک وارننگ ہے۔ یہ واقعہ یاد دلاتا ہے کہ طاقت کے استعمال سے امن نہیں، بلکہ مزید بے یقینی جنم لیتی ہے۔ قطر ایک چھوٹا مگر بااثر ملک ہے، اور اس پر حملہ عالمی برادری کے لیے ایک امتحان بن چکا ہے۔

اگر دنیا نے اب بھی انصاف کی بنیاد پر موقف نہ اپنایا تو آنے والے دنوں میں مشرقِ وسطیٰ مزید تقسیم، تشدد اور عدم استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ یہ لمحہ ہے کہ عالمی قیادت صرف الفاظ نہیں، عملی اقدامات کرے — ورنہ تاریخ اسے خاموش تماشائی کے طور پر یاد رکھے گی۔