logo

قطر اور اسرائیل کشیدگی: مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی تناؤ کی نئی لہر

قطر اور اسرائیل کشیدگی

قطر اور اسرائیل کشیدگی ایک نئے بحران کی شکل اختیار کر رہی ہے، جس میں امریکہ، عرب ممالک اور عالمی برادری کے تعلقات پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔

قطر اور اسرائیل کشیدگی نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی ہلچل مچا دی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں ہونے والے واقعات نے نہ صرف خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ عالمی سفارتی توازن پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ امریکی وزیرِ خارجہ کی یروشلم میں اسرائیلی قیادت سے ملاقات کے بعد صورتحال مزید سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ قطر، جو امریکہ کا اہم اتحادی اور خلیجی سیاست کا مرکزی کھلاڑی سمجھا جاتا ہے، اس وقت سفارتی دباؤ میں ہے جبکہ اسرائیل اپنے اقدامات کا دفاع عالمی سطح پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ بحران صرف دو ممالک کے درمیان کشیدگی نہیں بلکہ ایک ایسے تنازعے کی علامت ہے جو برسوں سے مشرقِ وسطیٰ کے امن کو کمزور کرتا آ رہا ہے۔ تازہ ترین پیش رفت نے عالمی طاقتوں کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر اس خطے میں اپنے کردار کا جائزہ لیں۔

حالیہ دنوں میں قطر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے ہیں جب اسرائیلی فضائیہ نے قطر کی حدود میں موجود ایک مقام پر فضائی کارروائی کی۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ یہ کارروائی حماس کے کچھ رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی تھی، تاہم قطر نے اس اقدام کو اپنی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، جو اس وقت مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر ہیں، نے یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قطر پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ایجنڈے میں سرفہرست رہی۔ روبیو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس حملے سے “خوش نہیں” اور اب واشنگٹن چاہتا ہے کہ خطے میں مزید کشیدگی کو روکا جائے۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس موقع پر کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات “مغربی دیوار کی طرح مضبوط” ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے یروشلم کے مقدس مقامات کا دورہ بھی کیا لیکن قطر پر حملے سے متعلق سوالات کو نظر انداز کر دیا۔

ادھر قطر نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ “دوہرے معیار” کو ترک کرے اور اسرائیل کے اقدامات کے خلاف سخت مؤقف اپنائے۔ قطر کے وزیر اعظم نے کہا کہ اگر عالمی طاقتیں خاموش رہیں تو مشرقِ وسطیٰ ایک نئے تنازعے کی دہلیز پر پہنچ جائے گا۔

اس دوران اسرائیلی افواج نے غزہ شہر میں اپنی کارروائیاں مزید تیز کر دی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق شہریوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ شمالی علاقوں سے جنوبی غزہ منتقل ہو جائیں۔ تاہم کئی شہریوں نے بتایا کہ جنوبی علاقہ بھی محفوظ نہیں کیونکہ وہاں بھی اسرائیلی فضائی حملے جاری ہیں۔

یہ تمام واقعات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس قریب ہے، جہاں کئی مغربی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت کرنے والے ہیں۔ یہ پیش رفت اسرائیل کے اندر ایک نئی سیاسی بحث کو جنم دے رہی ہے — کہ آیا فلسطینی ریاست کے قیام کو روکا جا سکتا ہے یا نہیں۔

پس منظر

قطر اور اسرائیل کے تعلقات کبھی بھی معمول کے نہیں رہے۔ اگرچہ دونوں ممالک نے باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے، لیکن ماضی میں قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات نے کئی مرتبہ غزہ میں جنگ بندی کی راہ ہموار کی۔

تاہم اسرائیل کی جانب سے حالیہ حملہ قطر کی سفارتی کوششوں کے منہ پر ایک طمانچہ سمجھا جا رہا ہے۔ قطر خلیجی خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا فضائی اڈہ رکھنے والا ملک ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ فلسطینی عوام کے لیے مالی و انسانی امداد بھی فراہم کرتا ہے۔ یہی دوہرا کردار اسے اکثر عالمی سیاست میں ایک نازک مقام پر کھڑا کر دیتا ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں اسرائیل کی حکومت نے مغربی کنارے میں بستیوں کی توسیع اور فلسطینی علاقوں کے انضمام کی پالیسی اپنائی ہے، جس پر عالمی برادری مسلسل تنقید کرتی آئی ہے۔ یہی تناؤ اب قطر تک جا پہنچا ہے، جو خود کو امن کا داعی قرار دیتا ہے۔

ردعمل

عالمی سطح پر اسرائیلی حملے پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ عرب لیگ نے ہنگامی اجلاس طلب کر کے قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ سعودی عرب، کویت، اور عمان نے بھی اسرائیلی اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ یہ خطے میں امن کی کوششوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے نے بحث چھیڑ دی۔ ہزاروں صارفین نے “قطر پر حملہ” کے ہیش ٹیگ کے تحت اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کئی صارفین نے سوال اٹھایا کہ اگر امریکہ واقعی امن چاہتا ہے تو وہ اپنے اتحادی اسرائیل کے خلاف خاموش کیوں ہے؟

سیاسی ماہرین کے مطابق امریکہ ایک مشکل پوزیشن میں ہے۔ ایک طرف اسرائیل اس کا پرانا اتحادی ہے، جبکہ دوسری طرف قطر خلیجی خطے میں امریکی مفادات کے لیے ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن کھل کر کسی ایک فریق کے حق میں بولنے سے گریز کر رہا ہے۔

تجزیہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ قطر اور اسرائیل کشیدگی نہ صرف دو ممالک کے درمیان تنازعہ ہے بلکہ یہ مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل کی سمت متعین کر سکتی ہے۔ اگر یہ بحران مزید بڑھا تو اس کے اثرات توانائی کی منڈی، عرب اتحاد اور امریکی پالیسی تک پھیل سکتے ہیں۔

قطر گیس پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ اگر خلیجی خطے میں جنگ یا تنازعہ شدت اختیار کرتا ہے تو عالمی منڈی میں توانائی کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ عرب دنیا میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل پر بھی منفی اثر پڑے گا۔

امریکہ کے لیے یہ ایک امتحان ہے کہ وہ اپنے دونوں اتحادیوں — اسرائیل اور قطر — کے درمیان توازن کیسے قائم رکھتا ہے۔ اگر امریکہ نے غیر جانبداری اختیار نہ کی تو اسے عرب دنیا میں سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مستقبل کے اثرات

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر کشیدگی کم نہ ہوئی تو آنے والے دنوں میں قطر اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں باضابطہ شکایت درج کرا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عرب ممالک ایک مشترکہ قرارداد کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کا منصوبہ بھی بنا رہے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل داخلی دباؤ کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اگر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی قرارداد منظور ہو گئی تو اسرائیلی حکومت کے لیے عالمی سطح پر دفاعی پوزیشن برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

ممکن ہے کہ امریکہ پسِ پردہ مذاکرات کے ذریعے دونوں فریقین کو کسی مفاہمتی فارمولے پر آمادہ کرے، لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو مشرقِ وسطیٰ ایک اور بڑے بحران کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

اختتامیہ

قطر اور اسرائیل کشیدگی اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن ابھی بھی ایک خواب ہے۔ ہر نیا واقعہ اس خطے کو مزید غیر مستحکم کر رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر انصاف پر مبنی مؤقف اختیار کرے۔

اگر قطر اور اسرائیل کے درمیان موجودہ بحران سفارت کاری کے ذریعے حل نہ کیا گیا تو یہ تنازعہ صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورے خطے کے امن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل کا انحصار اب اس بات پر ہے کہ عالمی طاقتیں اس بار کس طرف کھڑی ہوتی ہیں — انصاف کے ساتھ یا مفادات کے ساتھ۔