غزہ پر اسرائیلی کارروائی نے ایک بار پھر دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ رات بھر جاری رہنے والی بمباری، زمینی کارروائیاں اور تباہ شدہ عمارتوں سے اٹھتا دھواں ایک ایسا منظر پیش کر رہا ہے جو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق، اسرائیل نے غزہ کے مرکزی علاقوں میں اپنی فوجی کارروائیوں کو وسعت دی ہے جبکہ شہری آبادی مسلسل خطرے کی زد میں ہے۔ اس جنگ نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ دنیا بھر میں ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دے دیا ہے۔
غزہ شہر اس وقت ایک مکمل جنگی میدان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق اسرائیلی فوج نے رات بھر توپ خانے اور فضائی حملوں کے ذریعے شہر کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا۔ درجنوں رہائشی عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں جبکہ امدادی کارکن ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے میں مصروف ہیں۔ فلسطینی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد ہر گھنٹے کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور اسپتال زخمیوں سے بھر گئے ہیں۔
غزہ کے شہریوں نے بتایا کہ شہر میں بجلی، پانی اور خوراک کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اسرائیلی افواج نے شہریوں کو جنوب کی جانب ہجرت کرنے کا حکم دیا ہے، مگر وہاں بھی فضائی حملے جاری ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق تقریباً ڈھائی لاکھ سے زائد افراد پہلے ہی بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ لاکھوں لوگ اب بھی محصور ہیں اور ان کے لیے نکلنے کا کوئی محفوظ راستہ موجود نہیں۔
Night of powerful attacks in Gaza City:
The air forces struck dozens of targets across the city at night — in the Sabra, Daraj, Sheikh Radwan neighborhoods, the Shati refugee camp, Tel al-Hawa, and other locations.
Palestinians report dozens of dead and wounded as a result of the…— Dana Levi דנה🇮🇱🇺🇸 (@Danale) September 16, 2025
دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاتس نے اعلان کیا ہے کہ “غزہ جل رہا ہے اور ہم اپنی مہم مکمل کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔” یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد یہ واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کے “دفاعی حق” کے ساتھ کھڑا ہے۔
روبیو نے یہ بھی کہا کہ اگر حماس مسلح تنظیم کے طور پر ختم نہ کی گئی تو مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ کارروائی صرف عسکری حکمتِ عملی نہیں بلکہ ایک سیاسی دباؤ کا بھی حصہ ہے۔
اسی دوران قطر، جو حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، نے دوحہ پر ہونے والے اسرائیلی حملے کی سخت مذمت کی ہے۔ قطر کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی کارروائیاں خطے کے امن کو مزید خطرناک سمت میں دھکیل رہی ہیں۔ قطر میں موجود امریکی اڈے کے باعث واشنگٹن حکومت بھی اس تنازع کے بیچ میں براہِ راست اثرانداز ہو رہی ہے۔
غزہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تنازع 1948 میں اسرائیل کے قیام سے ہی وقتاً فوقتاً شدت اختیار کرتا رہا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے “پوری طاقت سے جواب دینے” کا اعلان کیا تھا، جس کے نتیجے میں غزہ ایک طویل جنگ میں داخل ہو گیا۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق اس وقت تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں نصف خواتین اور بچے شامل ہیں۔ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ادارے مسلسل متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر کارروائیاں اسی رفتار سے جاری رہیں تو غزہ ایک مکمل انسانی تباہی کا شکار ہو جائے گا۔
غزہ پٹی کی جغرافیائی محدودیت، ناکہ بندی اور کمزور بنیادی ڈھانچے نے اس خطے کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ اسرائیل نے 2007 سے غزہ کا زمینی اور سمندری محاصرہ کر رکھا ہے، جس کے باعث مقامی آبادی نہ خوراک باآسانی حاصل کر سکتی ہے نہ طبی امداد۔ اس پس منظر میں موجودہ حملے انسانی بحران کو کئی گنا بڑھا رہے ہیں۔
دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر غزہ کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ ٹوئٹر، انسٹاگرام اور فیس بک پر لاکھوں صارفین نے “Save Gaza” اور “Stop the War” جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرائے۔
امریکہ اور یورپ کے مختلف شہروں میں بڑے مظاہرے ہوئے، جن میں مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری فوری جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرے۔
اسرائیل کے اندر بھی احتجاج دیکھنے میں آیا، خاص طور پر اُن خاندانوں کی جانب سے جن کے پیارے غزہ میں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ ان خاندانوں نے نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ “حکومت ہمارے عزیزوں کو بچانے کے لیے جنگی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے۔”
عرب ممالک نے بھی سخت ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ مصر، اردن، ترکی اور قطر نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی جارحیت خطے کے امن کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
ایران اور لبنان کی حزب اللہ نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ پر حملے جاری رہے تو پورا مشرقِ وسطیٰ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال نہ صرف ایک انسانی سانحہ ہے بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ امریکہ کی کھلی حمایت نے عرب ممالک کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جبکہ روس اور چین اس موقع پر سفارتی توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
معاشی لحاظ سے بھی یہ جنگ عالمی منڈیوں کو متاثر کر رہی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور مشرقِ وسطیٰ کی غیر یقینی صورتحال نے عالمی معیشت پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق اسرائیل کا مقصد حماس کو کمزور کرنا ضرور ہے، لیکن اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کو ہو رہا ہے۔ غزہ میں تعلیمی ادارے بند ہیں، اسپتال تباہ ہو چکے ہیں، اور خوراک کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔ اگر فوری جنگ بندی نہ ہوئی تو آنے والے ہفتوں میں انسانی بحران ناقابلِ قابو ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے زمینی کارروائی میں مزید شدت اختیار کی تو خطہ ایک طویل جنگ میں پھنس سکتا ہے۔ قطر، ترکی اور مصر ثالثی کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن سیاسی موقف اتنے سخت ہیں کہ کسی فوری معاہدے کا امکان کم نظر آتا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر امدادی راستے نہ کھولے گئے تو غزہ میں قحط، وبائیں اور بڑے پیمانے پر ہجرت ناگزیر ہو جائے گی۔
دوسری جانب امریکہ پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اسرائیل پر قابو پائے اور انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کروائے۔ اگر عالمی برادری نے فوری قدم نہ اٹھایا تو یہ تنازع صرف غزہ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورے خطے کے امن کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
غزہ پر اسرائیلی کارروائی ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں ہر لمحہ انسانی جانوں کی قیمت پر سیاسی فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک اگر اس موقع پر خاموش رہے تو تاریخ ایک اور انسانی المیہ اپنے صفحات میں درج کرے گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگ کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دی جائے، تاکہ غزہ کے معصوم عوام ایک بار پھر زندگی کی سانس لے سکیں۔