پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے ایک حالیہ انٹرویو میں واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف دنیا کی بڑی افواج میں شمار ہوتی ہیں بلکہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت، نظم و ضبط اور دفاعی تیاریوں میں بے مثال بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ امن کا خواہاں رہا ہے، تاہم اگر ملک کے دفاع یا امتِ مسلمہ کے تحفظ کی بات آئے تو پاکستان اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں وزیرِ خارجہ نے مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، اسرائیلی جارحیت اور اقوامِ متحدہ کے غیر مؤثر کردار پر تفصیلی گفتگو کی۔ یہ گفتگو ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد عرب و اسلامی ممالک کے درمیان مشترکہ ردعمل کی بحث تیز ہو چکی ہے۔
الجزیرہ کے صحافی اسامہ بن جاوید کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے ہمیشہ اپنے عزم اور پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہماری فوج، فضائیہ اور بحریہ نہ صرف بڑی ہیں بلکہ مؤثر بھی ہیں، اور روایتی جنگ میں اپنی صلاحیتوں کو ثابت کر چکی ہیں۔”
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کے بعد ایک نئے عرب-اسلامی فوجی اتحاد کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ انٹرویو میں پوچھے گئے سوال پر کہ اگر اقوامِ متحدہ سے ہٹ کر مسلم ممالک ایک مشترکہ فورس بنائیں تو کیا پاکستان اس کا حصہ بنے گا، اسحاق ڈار نے کہا کہ ایسا ممکن ہے، بشرطیکہ یہ اتحاد جارحیت کے بجائے امن کے قیام کے لیے بنایا جائے۔
🔺🇵🇰🇵🇸❌🇮🇱:
Pakistan has strong army ,air force and navy and it can beat the enemy if challenged (by Israel), Pakistan’s FM says. pic.twitter.com/XkLZwaDeBY— Tactical Tribune (@TacticalTribun) September 16, 2025
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ حالیہ عرصے میں عرب لیگ اور دیگر ممالک بھی ایک مشترکہ سکیورٹی فورس کے قیام پر غور کر رہے ہیں تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن بحال کیا جا سکے۔
ان کے مطابق، اگر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل مخصوص ممالک پر پابندیاں لگا سکتی ہے تو خطے کے ممالک بھی اپنے تحفظ کے لیے ایک مؤثر نظام تشکیل دے سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ ایسا نظام صرف دفاعی اور امن پر مبنی ہونا چاہیے، کسی جارحانہ مقصد کے لیے نہیں۔
غزہ اور قطر پر اسرائیلی حملوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ “کسی خودمختار ملک پر حملہ کرنے کے اسرائیلی جواز بے بنیاد ہیں، کیونکہ قطر اُس وقت امن مذاکرات کی میزبانی کر رہا تھا۔”
انہوں نے اسرائیلی اقدامات کو غیر ذمہ دارانہ اور غنڈہ گردی قرار دیا اور کہا کہ “بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور سلامتی کونسل کے فیصلے اسرائیل کے لیے بیکار ثابت ہو رہے ہیں۔” ان کے مطابق، اگر عالمی ادارے مؤثر کردار ادا نہیں کرتے تو دنیا بھر میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور امن کا نظام کمزور پڑ جائے گا۔
پاکستان کا موقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ بین الاقوامی مسائل کا حل طاقت کے بجائے سفارت کاری اور مذاکرات سے نکلتا ہے۔ 1948 سے لے کر آج تک مشرقِ وسطیٰ میں فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کا موقف دوٹوک رہا ہے — کہ اسرائیل کی توسیع پسندی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے۔ پاکستان اقوامِ متحدہ، او آئی سی، اور اسلامی ممالک کے مشترکہ پلیٹ فارم سے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا آیا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں جب بھی غزہ میں کشیدگی بڑھی، اسلام آباد نے نہ صرف عالمی سطح پر مذمت کی بلکہ انسانی بنیادوں پر مدد کی پیشکش بھی کی۔ اسی پس منظر میں اسحاق ڈار کا یہ بیان صرف ایک سفارتی تبصرہ نہیں بلکہ پاکستان کی طویل المدتی خارجہ پالیسی کی تسلسل کا عکاس ہے — ایک ایسی پالیسی جو طاقت کے بجائے عدل اور بین الاقوامی اصولوں پر مبنی ہے۔
اسحاق ڈار کے انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے بیان کو وسیع پیمانے پر سراہا گیا۔ پاکستانی صارفین نے کہا کہ وزیرِ خارجہ نے عالمی برادری کو واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے جو امن چاہتا ہے مگر اپنے دفاع پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ کئی صارفین نے اس بات پر زور دیا کہ یہ بیان اس وقت آیا ہے جب مسلم دنیا ایک واضح قیادت کی متلاشی ہے، اور پاکستان کا کردار اس حوالے سے فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔
عرب میڈیا میں بھی اس بیان کو نمایاں کوریج ملی۔ سعودی عرب، مصر اور قطر کے تجزیہ کاروں نے کہا کہ اگر پاکستان جیسے ممالک مشترکہ سکیورٹی فورس کے قیام کی حمایت کرتے ہیں تو خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے ڈار کے بیان کو “سیاسی انتباہ” قرار دیا اور کہا کہ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ مسلم ممالک کے خلاف کسی بھی جارحیت کے سامنے خاموش نہیں رہے گا۔
یہ بیان پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک سفارتی وضاحت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایک جانب حکومت نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے، دوسری جانب یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اسلام آباد کسی بھی مسلم ملک پر حملے کی صورت میں خاموش نہیں بیٹھے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اسحاق ڈار کا انٹرویو نہ صرف پاکستان کے دفاعی عزم کو ظاہر کرتا ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں اسلام آباد کی نئی فعال پوزیشن کی بھی علامت ہے۔
بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات مضبوط ہیں، جبکہ عرب دنیا اندرونی طور پر تقسیم کا شکار ہے۔ پاکستان کی یہ پوزیشن اس تقسیم کو کم کرنے اور مسلم ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین کے مطابق اگر اسلام آباد سفارتی طور پر متحرک کردار ادا کرے تو وہ نہ صرف اقوامِ متحدہ کے اندر اصلاحات کے لیے دباؤ بڑھا سکتا ہے بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی ایک متوازن مکالمے پر مجبور کر سکتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق، اگر مشرقِ وسطیٰ میں حالات مزید بگڑتے ہیں تو ممکن ہے کہ اسلامی ممالک کا ایک دفاعی بلاک یا سکیورٹی فورس وجود میں آ جائے۔ پاکستان کا ممکنہ کردار اس میں کلیدی ہوگا، کیونکہ وہ واحد مسلم ایٹمی طاقت ہے جس کی افواج عالمی سطح پر تربیت یافتہ اور منظم ہیں۔ اسحاق ڈار کے بیان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ پاکستان اپنے دفاعی اتحادوں اور علاقائی کردار کو ازسرِ نو متعین کرنے کے عمل میں ہے۔
اگر اقوامِ متحدہ کی کارکردگی کمزور رہی تو مسلم دنیا متبادل ادارے بنانے کی طرف جا سکتی ہے۔ پاکستان کا یہ واضح مؤقف کہ “سلامتی کونسل میں بنیادی اصلاحات ضروری ہیں” مستقبل میں بین الاقوامی سیاست کی سمت بدلنے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ یہ مؤقف نہ صرف پاکستان کے عالمی اثرورسوخ کو بڑھائے گا بلکہ مسلم دنیا کو ایک نیا سفارتی اور دفاعی نظریہ فراہم کر سکتا ہے۔
اسحاق ڈار کا انٹرویو ایک اہم پیغام لیے ہوئے ہے: پاکستان امن چاہتا ہے، مگر کمزوری نہیں دکھائے گا۔ ملک کی مسلح افواج تیار، منظم اور ذمہ دار ہیں — ان کی موجودگی کسی بھی جارح قوت کے لیے ڈیٹرنس (Deterrence) کا کردار ادا کرتی ہے۔ اگر عالمی ادارے اپنے کردار میں ناکام رہے تو پاکستان جیسے ممالک کو اپنی خودمختار خارجہ اور دفاعی پالیسی کو مضبوط بنانا ہوگا۔ دنیا اس وقت توازن کی تلاش میں ہے — اور پاکستان چاہتا ہے کہ یہ توازن امن، انصاف اور برابری کی بنیاد پر قائم ہو۔