logo

آئی سی سی کا فیصلہ اور پاک بھارت تنازع: اسپرٹ آف کرکٹ پر سوالات اٹھ گئے

آئی سی سی کا فیصلہ

آئی سی سی کا فیصلہ، پاک بھارت میچ کے دوران پیدا ہونے والے تنازع پر نئی بحث چھیڑ گیا۔ پی سی بی کی شکایت، ریفری کے کردار اور کھیل کی روح پر سوالات۔

آئی سی سی کا فیصلہ ایک بار پھر پاک بھارت کرکٹ تعلقات میں کشیدگی کا باعث بن گیا ہے۔ دبئی میں ہونے والے ایشیا کپ کے دوران پیش آنے والے ایک واقعے نے نہ صرف دونوں بورڈز کے تعلقات میں تناؤ پیدا کیا بلکہ شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں بھی کئی نئے سوالات جنم دیے ہیں۔ جہاں کرکٹ کو دوستی، رواداری اور کھیل کے جذبے کی علامت سمجھا جاتا ہے، وہیں اس بار سیاست اور جذبات نے کھیل کی روح پر اثر ڈال دیا ہے۔

دبئی میں کھیلے گئے پاک بھارت میچ کے دوران ایک غیر متوقع تنازع سامنے آیا جب ٹاس کے موقع پر دونوں ٹیموں کے کپتانوں کو ہاتھ ملانے سے روک دیا گیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اسے “اسپرٹ آف کرکٹ” کے منافی قرار دیتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) سے باضابطہ شکایت دائر کی۔  پی سی بی کے مطابق، میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ نے ایسی ہدایت جاری کی جو نہ صرف غیر مناسب تھی بلکہ کرکٹ کے بنیادی آداب کے خلاف بھی گئی۔

بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ آئی سی سی نے پی سی بی کی شکایت مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریفری کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ تاہم پی سی بی نے وضاحت کی کہ انہیں ابھی تک آئی سی سی کی جانب سے کوئی باضابطہ جواب موصول نہیں ہوا۔ اس تضاد نے معاملے کو مزید مبہم بنا دیا۔

دوسری جانب بھارتی کپتان سوریا کمار یادو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہاتھ نہ ملانے کا فیصلہ “قومی مؤقف” کے مطابق تھا۔ انہوں نے میچ کی کامیابی کو بھارتی افواج کے نام کرتے ہوئے اسے اپنے ملک کے لیے “جواب” قرار دیا۔ پاکستانی کوچ مائیک ہیسن نے اس رویے کو “مایوس کن” قرار دیا اور کہا کہ کھیل کو سیاست سے پاک رکھنا ہی کرکٹ کی اصل روح ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی سی سی کے اس رویے سے ایک خطرناک مثال قائم ہو سکتی ہے۔ اگر کھیل میں سیاسی اثرات کو جگہ دی گئی تو مستقبل میں عالمی کھیلوں کی غیر جانبداری پر سوال اٹھنا فطری ہوگا۔

پس منظر:

یہ پہلا موقع نہیں جب پاک بھارت کرکٹ میدان سے باہر کے تنازعات کا شکار بنی ہو۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ سیریز بند ہو گئی تھی، اور اب صرف عالمی یا ایشیائی ٹورنامنٹس میں ہی ان کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔

“اسپرٹ آف کرکٹ” کا بنیادی اصول ہمیشہ یہی رہا ہے کہ کھلاڑی ایک دوسرے کے لیے احترام اور کھیل کے جذبے کا مظاہرہ کریں۔ مگر حالیہ تنازع نے اسی اصول کو چیلنج کر دیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سیاست کرکٹ پر غالب آ گئی تو اس کھیل کی عالمی ساکھ متاثر ہو گی۔

اسی طرح ماضی میں بھی مختلف مواقع پر کھلاڑیوں کے بیانات اور حکومتی پالیسیوں نے کرکٹ کے میدان میں کشیدگی پیدا کی۔ مگر اس بار تنازعہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اسپرٹ آف کرکٹ پر عالمی سطح پر بحث شروع ہو گئی ہے۔

ردعمل:

سوشل میڈیا پر اس معاملے نے زبردست ہلچل مچا دی۔ پاکستانی صارفین نے آئی سی سی کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ کھیل میں دوہرا معیار اپنایا جا رہا ہے۔ ٹوئٹر (ایکس) پر “#SpiritOfCricket” ٹرینڈ کرنے لگا، اور ہزاروں صارفین نے مطالبہ کیا کہ آئی سی سی غیر جانبداری کو یقینی بنائے۔

بھارت میں بھی اس پر مختلف آراء سامنے آئیں۔ کچھ لوگوں نے اپنے کپتان کے فیصلے کو درست قرار دیا جبکہ دیگر نے کہا کہ کھیل کو سیاست سے آزاد رہنا چاہیے۔ سابق پاکستانی کپتان وسیم اکرم نے ایک انٹرویو میں کہا، “کرکٹ ہمیشہ تعلقات کو نرم کرنے کا ذریعہ رہی ہے، اسے تنازع کا میدان نہ بنایا جائے۔”

ماہرین اور کرکٹ شائقین دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کھیل کے جذبات کو سیاست سے جوڑ دیا گیا تو مستقبل میں شائقین کا اعتماد مجروح ہوگا اور کھیل کا اصل مقصد ختم ہو جائے گا۔

تجزیہ:

یہ معاملہ بظاہر ایک میچ تک محدود لگتا ہے، مگر درحقیقت اس نے کھیل کے عالمی نظام پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ آئی سی سی کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھنا ہے۔ اگر فیصلے مخصوص دباؤ کے تحت کیے گئے تو شفافیت اور اعتبار ختم ہو جائے گا۔

اس فیصلے کے معاشی اثرات بھی نمایاں ہو سکتے ہیں۔ پاک بھارت میچ ہمیشہ ٹی وی رائٹس، اشتہارات اور اسپانسرز کے لیے سب سے بڑا ایونٹ ہوتے ہیں۔ اگر یہ تنازع بڑھا تو نہ صرف ایشیا کپ بلکہ ورلڈ کپ جیسے ایونٹس پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اب وقت آ گیا ہے کہ آئی سی سی ایک واضح ضابطہ اخلاق تشکیل دے جس میں سیاسی اثرات، کھلاڑیوں کے رویے اور اسپرٹ آف کرکٹ کی حدود متعین ہوں۔

آئندہ کے اثرات:

اگر پی سی بی اپنی شکایت پر قائم رہا تو امکان ہے کہ آئی سی سی کو اس معاملے پر باقاعدہ انکوائری کرنا پڑے۔ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے شیڈول میچز متاثر ہو سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ دیگر کرکٹ بورڈز بھی اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں، کیونکہ اگر کھیل میں سیاسی ترجیحات شامل ہو گئیں تو عالمی سطح پر کھیل کا توازن بگڑ سکتا ہے۔

یہ تنازع دیگر کھیلوں کے منتظم اداروں کے لیے بھی سبق ہے کہ غیر جانبداری کو برقرار رکھنا کس قدر ضروری ہے۔ اگر آئی سی سی اس معاملے کو شفاف انداز میں حل نہ کر سکا تو اس کے فیصلوں پر سوالات اٹھتے رہیں گے اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

نتیجہ:

آئی سی سی کا فیصلہ بظاہر انتظامی نوعیت کا ہے، مگر اس کے اثرات کرکٹ کی دنیا سے کہیں آگے جا سکتے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات پہلے ہی حساس نوعیت کے ہیں، اور کرکٹ ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی توازن قائم رکھنے کا ایک ذریعہ رہی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں بورڈز کھیل کے اصولوں کو سیاست سے بالاتر رکھیں تاکہ کرکٹ اپنی اصل روح کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔

کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں بلکہ عوامی جذبات اور امن کا پیغام دینے والا ذریعہ ہے۔ اگر “اسپرٹ آف کرکٹ” کو برقرار رکھا جائے تو یہی کھیل دونوں قوموں کے درمیان فاصلے کم کر سکتا ہے۔