ٹک ٹاک کی ملکیت کا مسئلہ کئی سالوں سے امریکا اور چین کے درمیان تنازعے کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ معاملہ صرف ایک سوشل میڈیا ایپ تک محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات، قومی سلامتی اور ٹیکنالوجی پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان ایک فریم ورک معاہدے کی خبر سامنے آئی ہے جس نے عالمی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ واقعی مسئلے کو حل کر پائے گا یا محض وقتی ریلیف فراہم کرے گا؟
امریکی وزیر خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا اور چین نے ٹک ٹاک کی امریکی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک فریم ورک معاہدہ طے کیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ٹک ٹاک کی والد کمپنی بائٹ ڈانس کو امریکا میں اپنی شاخ بیچنے یا کسی مقامی شراکت دار کے ساتھ کام کرنے کی راہ ہموار کرنی ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ایپ کو مکمل طور پر امریکا میں بین کرنے کا خطرہ موجود ہے۔
رپورٹس کے مطابق، بائٹ ڈانس کو ایک آخری ڈیڈ لائن دی گئی ہے جو 17 ستمبر کو ختم ہو رہی ہے۔ اگر اس وقت تک کوئی واضح خریدار سامنے نہ آیا تو ٹک ٹاک پر پابندی لگ سکتی ہے۔ اس سے قبل تین بار ڈیڈ لائن بڑھائی جا چکی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ کتنا پیچیدہ ہے۔
The US and China reach a ‘Framework’ Deal on TikTok. Bessent says Chinese side had “very aggressive asks.” Trade, export controls and critical minerals will be discussed next month. https://t.co/Lvb2MogF66
— Bonnie Glaser / 葛來儀 (@BonnieGlaser) September 15, 2025
ٹک ٹاک کی خریداری کے لیے کئی بڑے نام سامنے آ چکے ہیں، جن میں ٹیکنالوجی کمپنی اوریکل، یوٹیوب کے معروف تخلیق کار مسٹر بیسٹ اور ارب پتی سرمایہ کار فرینک میکورٹ شامل ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ٹک ٹاک کے طاقتور الگورتھم پر کنٹرول کس کے پاس ہوگا۔ یہی الگورتھم ٹک ٹاک کو دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے منفرد بناتا ہے اور امریکا اسے اپنی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف کے مطابق، ٹک ٹاک امریکی صارفین کا ڈیٹا بڑے پیمانے پر اکٹھا کرتا ہے جو ممکنہ طور پر چین کی حکومت یا انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب بائٹ ڈانس کا مؤقف ہے کہ اس کا ڈیٹا مکمل طور پر امریکا میں محفوظ ہے اور کبھی بھی چین کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا۔
یہ معاملہ 2020 سے چل رہا ہے جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار ٹک ٹاک پر پابندی کی دھمکی دی تھی۔ اس کے بعد سے کئی بار ٹک ٹاک کے خلاف قانونی اور سیاسی اقدامات کیے گئے۔ جنوری 2025 میں امریکی سپریم کورٹ نے اس قانون کو برقرار رکھا تھا جس کے تحت بائٹ ڈانس کو امریکا میں اپنی شاخ بیچنے پر مجبور کیا گیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ ٹک ٹاک امریکا میں 17 کروڑ صارفین رکھتا ہے اور نوجوانوں میں اس کی مقبولیت سب سے زیادہ ہے۔ اسی لیے پابندی کا فیصلہ نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی سطح پر بھی بڑے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان اس معاہدے کی خبر سامنے آتے ہی دونوں ملکوں میں مختلف ردعمل دیکھنے کو ملے۔ امریکی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک مثبت قدم ہے مگر اصل امتحان اس وقت ہوگا جب بائٹ ڈانس واقعی اپنی امریکی شاخ فروخت کرے گا۔
چینی حکام نے بھی فریم ورک معاہدے کی تصدیق کی ہے مگر ساتھ ہی یہ وضاحت کی ہے کہ وہ کسی بھی معاہدے کے نتیجے میں اپنے کاروباری مفادات پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا ٹک ٹاک واقعی محفوظ ہے یا یہ نوجوان نسل کے ڈیٹا کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ معاملہ صرف ایک ایپ کا نہیں بلکہ امریکا اور چین کی ٹیکنالوجی کی سرد جنگ کا حصہ ہے۔ امریکا نہیں چاہتا کہ چین کی کمپنیوں کو اپنے بڑے بازار تک کھلی رسائی حاصل ہو، جبکہ چین اپنی ٹیکنالوجی کو عالمی سطح پر منوانا چاہتا ہے۔
اس معاہدے سے وقتی طور پر بحران ختم ہو سکتا ہے مگر اصل مسئلہ “ڈیٹا سیکیورٹی” اور “الگورتھم کنٹرول” کا ہے۔ اگر ان سوالات کے واضح جواب نہ ملے تو مستقبل میں یہ تنازعہ دوبارہ شدت اختیار کر سکتا ہے۔
اگر ٹک ٹاک کسی امریکی کمپنی کو فروخت ہو گیا تو یہ سوشل میڈیا مارکیٹ میں ایک نیا موڑ ثابت ہوگا۔ اوریکل یا کوئی دوسری بڑی ٹیک کمپنی ٹک ٹاک کے ذریعے نوجوان صارفین تک پہنچ سکتی ہے جس سے فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب کے لیے سخت مقابلہ پیدا ہوگا۔
تاہم اگر بائٹ ڈانس نے معاہدے پر عمل نہ کیا تو ٹک ٹاک پر امریکا میں پابندی لگ سکتی ہے۔ اس صورت میں نہ صرف صارفین متاثر ہوں گے بلکہ امریکا اور چین کے تعلقات مزید کشیدہ ہو جائیں گے۔
ٹک ٹاک کی ملکیت کا تنازعہ اس بات کی علامت ہے کہ ٹیکنالوجی کس طرح عالمی سیاست اور معیشت میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ امریکا اور چین دونوں ہی اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا یہ فریم ورک معاہدہ واقعی عملی صورت اختیار کرتا ہے یا یہ محض ایک عارضی حل ثابت ہوگا۔