logo

امریکی صدر کا برطانیہ کا دورہ — اقتصادی معاہدوں نے لندن کو نئی امید دی

امریکی صدر کا برطانیہ کا دورہ

امریکی صدر کا برطانیہ کا دورہ اہم تجارتی معاہدوں اور اقتصادی تعاون کے نئے دور کا آغاز ثابت ہو رہا ہے، جس سے لندن کی معیشت میں نئی جان آئی ہے۔

امریکا اور برطانیہ کے تعلقات کو ہمیشہ سے “خصوصی تعلقات” کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف دفاعی اور سفارتی محاذ پر قریبی اتحادی ہیں بلکہ تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں بھی ایک دوسرے کے اہم شراکت دار ہیں۔ ایسے میں امریکی صدر کا برطانیہ کا دوسرا سرکاری دورہ عالمی سطح پر غیر معمولی توجہ حاصل کر رہا ہے۔

یہ دورہ اس وقت ہو رہا ہے جب برطانوی معیشت اندرونی دباؤ اور عالمی غیر یقینی صورتحال سے گزر رہی ہے۔ اسی تناظر میں بڑے امریکی اداروں کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدوں کو برطانیہ کے لیے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔  امریکی صدر اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ پہنچے تو لندن نے ان کے استقبال کے لیے سرخ قالین بچھا دیا۔ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور سفارتی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے عزم کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، اس دورے سے قبل ہی امریکا اور برطانیہ کے درمیان اربوں ڈالر کے اقتصادی معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔ ان معاہدوں میں توانائی، انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی اور مالیاتی شعبے شامل ہیں۔ امریکی کمپنیوں بلیک راک، بلیک اسٹون اور الفابیٹ نے برطانیہ میں سرمایہ کاری کے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا ہے، جن کے ذریعے ہزاروں نئی ملازمتیں پیدا ہونے کی توقع ہے۔

توانائی کے شعبے میں بھی کئی اہم معاہدے طے پائے ہیں، جن میں ایٹمی توانائی کے منصوبے خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ برطانوی حکومت ان معاہدوں کو “سنہری دور” کے آغاز کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق، ان منصوبوں سے برطانوی معیشت میں اعتماد کی نئی لہر پیدا ہوگی اور سرمایہ کاروں کے خدشات میں کمی آئے گی۔

امریکی صدر نے روانگی سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ برطانیہ کے ساتھ تجارتی معاہدوں کو “مزید بہتر اور متوازن” بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “موجودہ معاہدہ بہترین ہے، لیکن بہتری کی ہمیشہ گنجائش ہوتی ہے۔”

دوسری جانب برطانوی قیادت کا کہنا ہے کہ ان معاہدوں سے برطانیہ کی صنعت کو مضبوط بنیاد ملے گی، خاص طور پر اسٹیل اور ایلومینیم کے شعبے میں۔ تاہم ان مصنوعات پر عائد امریکی محصولات تاحال ایک بڑا چیلنج ہیں۔ برطانیہ ان 25 فیصد ڈیوٹیوں کو ختم کرانے کا خواہاں ہے، کیونکہ ملکی اسٹیل انڈسٹری پہلے ہی مالی دباؤ میں ہے۔

برطانوی اسٹیل ایسوسی ایشن کے مطابق، امریکا برطانیہ کی کل اسٹیل برآمدات کا تقریباً 7 فیصد خریدتا ہے، جو 2024 میں تقریباً 370 ملین پاؤنڈ کے برابر تھا۔ تاہم بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق محصولات کے خاتمے پر مذاکرات فی الحال مؤخر کر دیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود برطانوی حکومت پُرامید ہے کہ صدر کے اس دورے سے معاشی اعتماد بحال ہوگا۔

دورے کے دوران امریکی صدر اور برطانوی وزیرِاعظم نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ دونوں ممالک “اقتصادی خوشحالی کے شراکت دار” کے طور پر نئے منصوبوں کا آغاز کریں گے۔ ان منصوبوں میں گرین انرجی، مصنوعی ذہانت، اور جدید انفراسٹرکچر کے پروگرام شامل ہیں۔

امریکی تجارتی سیکریٹری کے مطابق، صدر ٹرمپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ برطانیہ کے واحد ایسے رہنما ہیں جنہیں دو مرتبہ سرکاری دورے پر مدعو کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ دورہ صرف سیاسی نہیں بلکہ معاشی تاریخ کا اہم سنگِ میل ہے۔”

پس منظر

امریکا اور برطانیہ کے تعلقات کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے دونوں ممالک نے عالمی سیاست میں قریبی اتحاد قائم رکھا ہے۔ چاہے نیٹو ہو یا اقوامِ متحدہ، دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔

تجارتی لحاظ سے بھی امریکا برطانیہ کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔ 2023 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 300 بلین ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ تاہم برگزٹ کے بعد برطانیہ کو یورپی منڈیوں سے تعلقات میں مشکلات کا سامنا ہوا، جس کے باعث امریکا کے ساتھ براہِ راست تجارتی شراکت داری زیادہ اہم بن گئی۔

گزشتہ برس امریکا اور برطانیہ کے درمیان “اقتصادی خوشحالی معاہدہ” ہوا تھا، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو آزاد اور آسان بنانے کے لیے ایک سنگِ بنیاد سمجھا جا رہا ہے۔

ردعمل

صدر کے دورے کو عالمی میڈیا میں نمایاں کوریج ملی ہے۔ برطانوی عوام کے ایک حصے نے اس دورے کا خیرمقدم کیا ہے، خاص طور پر کاروباری حلقوں نے اسے “معاشی بحالی کی کرن” قرار دیا ہے۔

دوسری جانب، کچھ سیاسی مبصرین نے تنقید کی ہے کہ حکومت نے اندرونی سیاسی بحران کے دوران امریکی صدر کے استقبال پر غیر ضروری زور دیا ہے۔ یاد رہے کہ حالیہ ہفتوں میں برطانیہ میں وزارتی استعفوں اور ٹیکس اسکینڈلز نے حکومت کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔

تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں امریکا کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات ہی برطانیہ کے لیے سب سے بڑی ضرورت ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی صارفین نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ معاہدے برطانوی معیشت کو نئی جان بخشیں گے۔

تجزیہ

یہ دورہ صرف ایک علامتی واقعہ نہیں بلکہ عملی اقتصادی شراکت داری کی نئی بنیاد ہے۔ برطانیہ اس وقت سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، اور امریکی سرمایہ کاری اس سمت میں پہلا مثبت اشارہ ہے۔

امریکی صدر کے اس دورے سے برطانیہ کو عالمی سطح پر ایک مستحکم تجارتی پارٹنر کے طور پر پیش ہونے کا موقع ملا ہے۔ دوسری طرف امریکا کے لیے بھی برطانیہ یورپ میں ایک قابلِ اعتماد دروازے کی حیثیت رکھتا ہے، خاص طور پر ٹیکنالوجی، فنانس، اور توانائی کے میدان میں۔

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک اس شراکت داری کو طویل مدتی پالیسی میں ڈھالنے میں کامیاب ہوگئے، تو یہ نہ صرف مغربی اتحاد کو مضبوط کرے گا بلکہ عالمی اقتصادی توازن پر بھی مثبت اثر ڈالے گا۔

ممکنہ مستقبل

اس دورے کے نتیجے میں آنے والے مہینوں میں دونوں ممالک کے درمیان کئی نئے منصوبے شروع ہونے کی توقع ہے۔ امریکی کمپنیاں لندن اور مانچسٹر میں ٹیکنالوجی پارکس اور انرجی ہبز کے قیام میں دلچسپی ظاہر کر چکی ہیں۔

برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سرمایہ کاری 2026 تک 100,000 نئی ملازمتیں پیدا کرے گی۔ ساتھ ہی اسٹیل اور ایلومینیم پر محصولات کے حوالے سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔

امید کی جا رہی ہے کہ یہ شراکت داری نہ صرف برطانیہ بلکہ پورے یورپ کے لیے نئے تجارتی راستے کھولے گی، اور امریکا کے لیے بھی عالمی سطح پر اپنے اتحادیوں کے اعتماد کی بحالی کا ذریعہ بنے گی۔

اختتامیہ

امریکی صدر کا برطانیہ کا یہ دورہ بظاہر سفارتی خوش اخلاقی کا مظاہرہ لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک بڑی معاشی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ اس دورے نے برطانیہ کے لیے سرمایہ کاری، روزگار اور تجارتی اعتماد کے نئے دروازے کھولے ہیں۔

اگر ان معاہدوں پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد کیا گیا تو یہ دورہ برطانیہ اور امریکا دونوں کے لیے ایک “ون-ون” صورتحال پیدا کرے گا — جہاں ایک طرف لندن کو معاشی استحکام ملے گا تو دوسری طرف واشنگٹن کو یورپ میں اپنی مضبوط پوزیشن دوبارہ حاصل ہوگی۔