logo

پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ — خطے میں نئی اسٹریٹجک طاقت کا آغاز

پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ

پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ پر دستخط، جس کے تحت کسی ایک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہوگا، خطے میں امن و استحکام کا نیا باب کھل گیا۔

پاکستان اور سعودی عرب نے بدھ کے روز ایک اہم اور تاریخی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے جو نہ صرف دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ خطے کے تزویراتی توازن کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ معاہدہ اس وقت طے پایا جب وزیراعظم شہباز شریف سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر ریاض کے دورے پر پہنچے۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان دفاعی، اقتصادی اور علاقائی استحکام سے متعلق امور پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔

مشترکہ اعلامیے کے مطابق، پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ اس اصول پر مبنی ہے کہ “اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوگا تو اسے دونوں ممالک پر حملہ سمجھا جائے گا۔” یہ شق دونوں ممالک کے درمیان باہمی دفاعی عزم کو ایک نئے درجے پر لے جاتی ہے۔ معاہدے کا مقصد خطے میں امن و استحکام کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور جارحیت کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی کو فروغ دینا ہے۔

دونوں ممالک نے ریاض میں ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ اس موقع پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیراعظم شہباز شریف نے باقاعدہ طور پر دستخط کیے، جبکہ دونوں ممالک کے اعلیٰ عسکری و سفارتی حکام بھی موجود تھے۔ تقریب الیمامہ پیلس میں منعقد ہوئی جہاں پاکستانی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی شریک تھے۔

تقریب کے دوران دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کی سلامتی ناقابلِ تقسیم ہے۔ اگر کسی ایک ملک کی خودمختاری یا دفاع کو خطرہ لاحق ہوگا تو دوسرا ملک اسے اپنی سلامتی پر حملہ تصور کرے گا۔ یہ طرزِ معاہدہ نیٹو طرز کی دفاعی پالیسی سے مشابہ قرار دیا جا رہا ہے، جو خطے کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے۔

اس موقع پر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ “سعودی عرب پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو محض سفارتی نہیں بلکہ برادرانہ رشتہ سمجھتا ہے۔ دفاع، توانائی، تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں ہمارا تعاون دونوں ممالک کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔” وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان کی تاریخ میں “قومی سلامتی کے باب میں ایک نیا موڑ” ہے اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق معاہدے میں انٹیلی جنس شیئرنگ، مشترکہ مشقوں، جدید دفاعی ٹیکنالوجی کی منتقلی، انسداد دہشت گردی آپریشنز، اور سائبر سیکیورٹی کے شعبوں میں تعاون شامل ہوگا۔ پاکستان کی دفاعی صنعت کو سعودی سرمایہ کاری کے ذریعے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھی اصولی اتفاق کیا گیا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ سعودی فضائیہ نے وزیراعظم کے طیارے کو ریاض کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی ایئر اسکارٹ دیا — جو دوستی، اعتماد اور خصوصی تعلقات کی علامت ہے۔ بعد ازاں، شہباز شریف اور محمد بن سلمان کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی جس میں خطے کی صورتحال، خصوصاً قطر پر اسرائیلی حملوں اور مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ دونوں رہنماؤں نے زور دیا کہ امتِ مسلمہ کو باہمی اتحاد اور دفاعی یکجہتی کی ضرورت ہے تاکہ بیرونی خطرات کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکے۔

پس منظر

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات سات دہائیوں پر محیط ہیں۔ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی اخوت میں جڑے ہوئے ہیں بلکہ دفاعی سطح پر بھی ان کے روابط ہمیشہ مضبوط رہے ہیں۔ 1960 کی دہائی سے پاکستانی فوجی ماہرین، ٹرینرز اور پائلٹس سعودی عرب میں خدمات انجام دیتے آئے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں سعودی عرب نے افغانستان کے بحران کے دوران پاکستان کی سیاسی اور دفاعی حمایت کی تھی، جبکہ حالیہ برسوں میں معاشی بحران کے دوران سعودی امداد پاکستان کے لیے ریلیف ثابت ہوئی۔

دفاعی میدان میں دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مشقیں، انٹیلی جنس تعاون اور عسکری تربیت کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ تاہم اس نئے معاہدے نے ان تعلقات کو رسمی اور ادارہ جاتی شکل دے دی ہے، جو آئندہ برسوں میں دونوں ممالک کے لیے ایک مشترکہ دفاعی فریم ورک کی بنیاد بن سکتا ہے۔

ردِعمل

اس تاریخی معاہدے پر دونوں ممالک کے عوام اور سیاسی حلقوں نے بھرپور خوشی کا اظہار کیا۔ سوشل میڈیا پر “#PakistanSaudiDefensePact” کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔ پاکستانی صارفین نے اس معاہدے کو “اسلامی دنیا کی مشترکہ طاقت کا آغاز” قرار دیا جبکہ سعودی شہریوں نے پاکستان کے ساتھ دیرینہ دوستی پر فخر کا اظہار کیا۔

پاکستانی وزیرِ دفاع نے کہا کہ یہ معاہدہ صرف عسکری تعاون تک محدود نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی علامت ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے بھی اسے “قومی مفاد میں فیصلہ” قرار دیا، تاہم کچھ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ پاکستان کو ایسے معاہدوں میں غیر جانب دارانہ خارجہ پالیسی برقرار رکھنی چاہیے تاکہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر نہ ہوں۔

تجزیہ

ماہرین کے مطابق پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ خطے میں طاقت کے نئے توازن کو جنم دے سکتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی، ایران اور اسرائیل کے تناؤ، اور قطر پر حالیہ حملوں کے تناظر میں یہ معاہدہ ایک اہم پیغام دیتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کسی بھی بیرونی خطرے کے مقابلے میں متحد رہیں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان کو نہ صرف جدید اسلحہ سازی میں مدد ملے گی بلکہ دفاعی انڈسٹری کو بھی ترقی کا نیا موقع ملے گا۔ سعودی عرب کے وژن 2030 کے تحت دفاعی پیداوار کا مقامی نظام تیار کیا جا رہا ہے، جس میں پاکستانی ماہرین کی شمولیت خطے میں مشترکہ خودکفالت کا آغاز ہو سکتی ہے۔

مستقبل کے امکانات

یہ معاہدہ مستقبل میں ایک “اسلامی دفاعی اتحاد” کے قیام کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ دونوں ممالک ممکنہ طور پر مشترکہ دفاعی کونسل تشکیل دیں گے، جو ہنگامی حالات میں فوری رابطہ اور کارروائی کے لیے کام کرے گی۔ علاوہ ازیں، خلیجی ممالک، ترکی اور مصر کو بھی آئندہ اس فریم ورک میں شامل کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے لیے اس معاہدے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اسے مشرقِ وسطیٰ میں نئی سفارتی اہمیت حاصل ہوگی، جبکہ سعودی عرب کو جنوبی ایشیا میں ایک قابلِ اعتماد دفاعی شراکت دار مل جائے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ معاہدہ نہ صرف عسکری بلکہ معاشی استحکام کے لیے بھی بنیاد بن سکتا ہے کیونکہ دفاعی صنعت میں سرمایہ کاری کے ساتھ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

نتیجہ

پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان گہرے باہمی اعتماد، اسلامی یکجہتی اور مشترکہ سلامتی کے جذبے کا مظہر ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کی سرحدوں کے دفاع کے لیے مضبوط قلعہ ثابت ہوگا بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی ایک امید افزا قدم ہے۔