logo

پاکستان کان کنی کا شعبہ — تانبے سے جدید معدنی ترقی تک نیا معاشی انقلاب

پاکستان کان کنی کا شعبہ

پاکستان کان کنی کا شعبہ دوبارہ ابھرتا ہوا، حکومت نے عالمی سرمایہ کاروں کو مدعو کیا، معدنی وسائل سے 2030 تک 8 ارب ڈالر آمدنی متوقع۔

پاکستان، جو دنیا کی قدیم ترین وادیٔ سندھ تہذیب کا وارث ہے، آج ایک بار پھر اپنے معدنی ورثے کو نئی زندگی دینے کے لیے کوشاں ہے۔ وہی خطہ جہاں پانچ ہزار سال قبل انسان نے تانبے اور کانسی سے دھات سازی کی ابتدا کی، اب جدید ٹیکنالوجی، بین الاقوامی سرمایہ کاری اور سائنسی بنیادوں پر پاکستان کان کنی کا شعبہ دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

کراچی میں منعقدہ “قدرتی وسائل اور توانائی سمٹ 2025” میں ماہرین، سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر پاکستان نے اپنے وسیع معدنی ذخائر کو بروئے کار لانے کے لیے فوری اقدامات کیے تو کان کنی کا شعبہ نہ صرف ملکی معیشت کو سنبھالا دے سکتا ہے بلکہ اسے خطے کی ایک ابھرتی ہوئی معیشت میں تبدیل کر سکتا ہے۔

نیشنل ریسورسز لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شمس الدین اے شیخ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے معدنی وسائل دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں، مگر افسوس کہ ان پر خاطر خواہ کام نہیں ہو سکا۔ ان کے مطابق پاکستان کے معدنی وسائل سے حاصل ہونے والی موجودہ آمدنی محض دو ارب ڈالر ہے، جسے 2030 تک 6 سے 8 ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ حکومت اور نجی شعبہ مل کر اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔

انہوں نے کہا کہ “پاکستان کان کنی کا شعبہ” صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں پر منحصر نہیں ہونا چاہیے بلکہ مقامی صنعت کاروں کو بھی اس میدان میں آگے آنا ہوگا تاکہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر، روزگار اور اقتصادی خودمختاری یقینی بنائی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی کمپنیاں قیادت کریں تو غیر ملکی شراکت دار استحصالی رویہ اختیار نہیں کر پائیں گے۔

شمس الدین شیخ نے موئن جو دڑو کے آثار کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پانچ ہزار سال قبل بھی ہمارے آبا و اجداد تانبے کو نکالنے، صاف کرنے اور ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ “اگر وہ اس دور میں یہ کر سکتے تھے، تو ہم آج جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کیوں نہیں کر سکتے؟”

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا کان کنی کا حصہ عالمی معدنی پیداوار میں صرف 0.15 فیصد ہے جبکہ ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 2 سے 3 فیصد تک محدود ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ملک میں موجود 92 معدنیات میں سے 90 فیصد اب بھی غیر دریافت شدہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ معدنیات تلاش کر لی جائیں تو پاکستان کے لیے نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوگا بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں بہتری آئے گی۔

شیخ نے بتایا کہ بلوچستان کے ریکو ڈک منصوبے سے سالانہ 4 سے 5 ارب ڈالر، سیاہ ڈک سے 1 سے 2 ارب ڈالر، تھر کول کے توسیعی منصوبے سے 20 کروڑ ڈالر جبکہ بیراٹ، لیڈ اور زنک منصوبوں سے 10 کروڑ ڈالر سالانہ آمدنی ممکن ہے۔ ان کے مطابق یہ سب منصوبے اگر بروقت مکمل ہو جائیں تو آئندہ پانچ برسوں میں پاکستان کی معدنیات سے آمدنی کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کان کنی صرف دولت پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ معاشرتی تبدیلی کا محرک بن سکتی ہے۔ “اگر منصوبے درست سمت میں چلیں تو وہ علاقے جو آج پس ماندہ ہیں، کل ترقی کے انجن بن سکتے ہیں۔”

پس منظر

پاکستان کی معدنی تاریخ انتہائی قدیم ہے۔ وادیٔ سندھ تہذیب میں دھات سازی، خاص طور پر تانبے اور کانسی کا استعمال عام تھا۔ موئن جو دڑو اور ہڑپہ کے آثار سے ملنے والی دھاتیں بتاتی ہیں کہ پانچ ہزار سال قبل بھی اس خطے کے لوگ دھاتوں کو صاف اور ڈھالنے کے فن سے واقف تھے۔

قیامِ پاکستان کے بعد بھی معدنی وسائل کی دریافت کا سلسلہ جاری رہا، لیکن سیاسی عدم استحکام، سرمایہ کاری کی کمی اور انفراسٹرکچر کی کمزوریوں نے اس شعبے کی ترقی کو محدود رکھا۔ 1970 اور 1980 کی دہائی میں کچھ چھوٹے منصوبے شروع ہوئے، لیکن بڑی سطح پر پیش رفت نہ ہو سکی۔ اب جبکہ پاکستان میں توانائی اور معاشی خود کفالت کی ضرورت بڑھ گئی ہے، حکومت نے کان کنی کے شعبے کو دوبارہ ترجیح دینا شروع کر دی ہے۔

ردِعمل

توانائی سمٹ کے دوران مختلف ماہرین اور صنعت کاروں نے اس وژن کی بھرپور تائید کی۔ فیڈیلیٹی انشورنس بروکرز پرائیویٹ لمیٹڈ کے بانی حسن آر محمدی نے کہا کہ معدنیات اور توانائی کے شعبے پاکستان کے لیے ترقی کا انجن بن سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “انشورنس سیکٹر سرمایہ کاروں کو ایسے حل دینے کے لیے تیار ہے جو خطرات کو کم کریں اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال رکھیں۔”

لکی سیمنٹ کے چیئرمین محمد سہیل تبہ نے کہا کہ پاکستان کے پاس دنیا کے بہترین معدنی وسائل موجود ہیں لیکن افسوس کہ ان سے فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے ملک اربوں ڈالر سالانہ گنوا رہا ہے۔ ان کے مطابق “ریکو ڈک جیسے منصوبے پاکستان کی اصل صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں، جو ملک کو نہ صرف مالی بلکہ سماجی طور پر بھی مستحکم کر سکتے ہیں۔”

تجزیہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کان کنی کا شعبہ اگر جدید ٹیکنالوجی، شفاف پالیسی اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ترقی کرے تو یہ ملک کی اقتصادیات کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کا بیشتر انحصار درآمدات پر ہے، جبکہ معدنی وسائل کی برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر ان وسائل کو بروئے کار لایا جائے تو پاکستان زرمبادلہ کے بحران سے نکل سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، کان کنی کا درست ماڈل وہ ہوگا جو معاشی فوائد کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تحفظ اور مقامی آبادی کی فلاح کو بھی یقینی بنائے۔ بین الاقوامی سرمایہ کاری ضروری ہے، لیکن اس کے لیے شفاف قانون سازی، سیاسی استحکام اور ادارہ جاتی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

مستقبل کے امکانات

اگر پاکستان نے وقت ضائع کیے بغیر کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی تو 2030 تک یہ شعبہ ملکی جی ڈی پی میں 8 فیصد تک حصہ ڈال سکتا ہے۔ بلوچستان، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں تانبہ، سونا، لوہا اور دیگر قیمتی معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔

حکومت اگر شفاف پالیسیوں اور ماحولیاتی ذمہ داری کے ساتھ کام کرے تو آنے والے برسوں میں یہ شعبہ روزگار، برآمدات اور زرمبادلہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے طاقتور انجن بن سکتا ہے۔

نتیجہ

پاکستان کان کنی کا شعبہ اس وقت ایک نازک مگر امید افزا موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر حکومت، نجی شعبہ اور بین الاقوامی سرمایہ کار مل کر ایک متوازن حکمتِ عملی اپنائیں تو پاکستان معدنی وسائل کے ذریعے نہ صرف اپنی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے بلکہ لاکھوں افراد کے لیے روزگار اور ترقی کے دروازے کھول سکتا ہے۔