logo

این ویڈیا چین پابندی جینسن ہوانگ کا امریکا، چین تعلقات پر بڑا بیان

این ویڈیا اور چین

این ویڈیا چین پابندی کے بعد سی ای او جینسن ہوانگ نے کہا کہ امریکا اور چین کے درمیان بڑے مسائل حل ہونا باقی ہیں، کمپنی مشکلات کے باوجود پرعزم۔

بدھ کے روز لندن میں گفتگو کرتے ہوئے این ویڈیا کے سی ای او جینسن ہوانگ نے کہا کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑے اور پیچیدہ ایجنڈے موجود ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا بیان اس وقت سامنے آیا جب امریکی ٹیکنالوجی کمپنی عالمی سطح پر اپنے اے آئی چپس کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے، لیکن ساتھ ہی امریکا-چین تجارتی کشیدگی کے مشکل ماحول میں راستہ تلاش کرنے کی کوشش بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

فنانشل ٹائمز کے مطابق چین کے انٹرنیٹ ریگولیٹر (CAC) نے بائٹ ڈانس اور علی بابا سمیت بڑی ٹیک کمپنیوں کو این ویڈیا کے امریکی چپس خریدنے سے روک دیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت موجودہ آرڈرز بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
یہ پابندی اس سے پہلے جاری کردہ ہدایات سے زیادہ سخت ہے جو صرف H20 ماڈل تک محدود تھیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بعض چینی کمپنیوں نے ابتدا میں ہزاروں RTX Pro 6000D چپس کے آرڈرز دیے تھے اور ٹیسٹنگ کا عمل بھی شروع کیا تھا، لیکن نئی ہدایت کے بعد ان آرڈرز کو روک دیا گیا۔

ہوانگ نے لندن میں کہا:

“ہم صرف اسی وقت کسی مارکیٹ میں خدمات فراہم کر سکتے ہیں جب وہ ملک ہمیں چاہے۔ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں، اس پر مایوسی ہے لیکن امریکا اور چین کے درمیان بڑے مسائل ہیں جنہیں طے ہونا ہے، اور میں اس پر صبر کر رہا ہوں۔”

اس بیان کے بعد کمپنی کے حصص بدھ کے روز 2.6 فیصد گر گئے۔

پس منظر

این ویڈیا اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اے آئی چپس سپلائر ہے، اور اس پر امریکی حکومت اور چینی قیادت دونوں کی گہری نظر ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے امریکا-چین تجارتی جنگ نے ٹیکنالوجی سیکٹر کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست کے وسط میں ایک غیر معمولی معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت این ویڈیا کو چین میں H20 چپس فروخت کرنے کی اجازت ملی تھی۔ اس کے بدلے امریکا کو ان فروختوں کا 15 فیصد حصہ دیا جانا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند دن قبل ہی ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ایسا معاہدہ نہیں کریں گے۔

تاہم کمپنی کے مطابق ابھی تک چین کو کوئی H20 چپس نہیں بھیجی گئیں، کیونکہ ادائیگی کے قواعد امریکی حکومت نے طے ہی نہیں کیے۔

دوسری جانب، چین کے لیے تیار کردہ RTX6000D چپ کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی کیونکہ وہ نسبتاً مہنگی اور کم مؤثر سمجھی جا رہی ہے، جس کے باعث بڑی چینی کمپنیوں نے آرڈر دینے سے گریز کیا۔

ردِعمل

رننگ پوائنٹ کیپیٹل ایڈوائزرز کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر مائیکل ایشلے شولمین نے کہا کہ:

“ہوانگ کا ‘بڑے ایجنڈوں’ والا بیان دراصل ایک سفارتی پیغام ہے کہ ہم اب ڈیجیٹل سرد جنگ کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ گزشتہ امریکی حکومتوں نے چین کی جدید چپس تک رسائی محدود کی، جبکہ بیجنگ نے اپنے اداروں پر دباؤ ڈالا کہ وہ امریکی سپلائرز سے فاصلہ اختیار کریں۔

اسی دوران، این ویڈیا نے واشنگٹن میں لابنگ کے اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق صرف 2025 کی پہلی ششماہی میں کمپنی نے 1.9 ملین ڈالر لابنگ پر خرچ کیے، جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔ کمپنی نے حال ہی میں تین نئی بیرونی فرمز اور 21 لابیسٹ ہائر کیے ہیں تاکہ پالیسی سازوں تک اپنا مؤقف مؤثر انداز میں پہنچایا جا سکے۔

تجزیہ

تجزیہ کاروں کے مطابق، این ویڈیا چین پابندی صرف تجارتی نہیں بلکہ جغرافیائی سیاست کا ایک نیا باب ہے۔ چین دنیا کی سب سے بڑی سیمی کنڈکٹر مارکیٹوں میں سے ایک ہے، اور گزشتہ سال این ویڈیا کی کل فروخت کا تقریباً 13 فیصد چین سے آیا۔

ایسے میں اگر پابندیاں برقرار رہتی ہیں تو کمپنی کو نہ صرف مالی نقصان ہوگا بلکہ اے آئی چپس کی عالمی سپلائی چین بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ امریکا اپنی قومی سلامتی کے تحت ٹیکنالوجی پر کنٹرول چاہتا ہے، جبکہ چین ٹیکنالوجی خودمختاری کے حصول پر بضد ہے۔ یہی توازن برقرار رکھنا عالمی کمپنیوں جیسے این ویڈیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

“آج کے عالمی منظرنامے میں این ویڈیا جیسے ادارے واشنگٹن کی پالیسیوں، بیجنگ کی شرائط اور اپنے شیئر ہولڈرز کی توقعات کے درمیان توازن قائم رکھنے پر مجبور ہیں۔”

مستقبل کے امکانات

اگر پابندیاں نرم نہ ہوئیں تو این ویڈیا اپنی فروخت کو بھارت، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کی مارکیٹوں میں منتقل کر سکتی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کے بغیر کمپنی کے لیے اپنی موجودہ آمدنی برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔ بیجنگ کی جانب سے مقامی چپ مینوفیکچرنگ میں سرمایہ کاری کے بعد، یہ امکان بھی بڑھ رہا ہے کہ چین جلد اپنی مقامی متبادل چپس متعارف کرا دے گا۔

نتیجہ

این ویڈیا چین پابندی نہ صرف ایک کارپوریٹ معاملہ ہے بلکہ یہ دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں کے درمیان ٹیکنالوجی کے میدان میں جاری مسابقت کی علامت ہے۔ اگر واشنگٹن اور بیجنگ نے اپنے اختلافات کو کم نہ کیا تو اس کے اثرات عالمی اے آئی انقلاب پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ فی الحال، جینسن ہوانگ کے مطابق، “صبر ہی بہترین حکمتِ عملی ہے