بھارتی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ امریکی ورک ویزا فیس (H-1B) میں اچانک کیے گئے اضافے سے انسانی بنیادوں پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک نئے حکم نامے کے تحت 21 ستمبر سے اس ویزا کی فیس ایک لاکھ امریکی ڈالر (تقریباً 88 لاکھ بھارتی روپے) مقرر کی گئی ہے۔
موجودہ فیس صرف 1,500 ڈالر ہے — یعنی نیا ریٹ 60 گنا زیادہ ہوگا۔
اعداد و شمار کے مطابق H-1B پروگرام سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والے بھارتی شہری ہیں، جو کل جاری کردہ ویزوں کا تقریباً 70 فیصد حاصل کرتے ہیں۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا کہ نئی فیس سے خاندانوں اور ملازمین پر غیر معمولی دباؤ پڑے گا اور یہ اقدام “انسانی بنیادوں پر تشویش ناک” ہے۔ وزارت نے امید ظاہر کی کہ امریکہ اس فیصلے کے اثرات پر غور کرے گا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات متاثر نہ ہوں۔
The Government of India has responded to the new fees.
“likely to have humanitarian consequences” means “H-1B Visas are a form of international welfare through remittance”. pic.twitter.com/XvfpPbjxDe
— America First Insight (@AF_Insight) September 20, 2025
بیان میں کہا گیا:
“ہنر مند افراد کے تبادلے نے امریکا اور بھارت کے تعلقات کو مضبوط کیا ہے، اس لیے پالیسی سازوں کو ایسے اقدامات میں باہمی فوائد کو مدنظر رکھنا چاہیے۔”
حکومت نے فی الحال کسی جوابی اقدام کا اعلان نہیں کیا، تاہم ماہرین کے مطابق بھارت تجارتی مذاکرات میں اس معاملے کو اٹھا سکتا ہے۔
امریکی ورک ویزا H-1B دراصل ایک ایسا پروگرام ہے جو امریکی کمپنیوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ عارضی طور پر ایسے غیر ملکی ماہرین کو ملازمت پر رکھ سکیں جو کسی مخصوص شعبے میں مہارت رکھتے ہوں۔
2024 میں امریکہ نے تقریباً چار لاکھ H-1B ویزے جاری کیے، جن میں سے دو لاکھ ساٹھ ہزار تجدید شدہ ویزے تھے۔ امریکی امیگریشن کے مطابق 2025 کے پہلے چھ ماہ میں سب سے زیادہ ویزے ایمازون (10,044) اور بھارتی کمپنی ٹی سی ایس (5,505) کو دیے گئے۔
صدر ٹرمپ کے حکم نامے کے مطابق اب وہ تمام درخواستیں جو بیرونِ ملک سے دی جائیں گی، ان کے ساتھ 1,00,000 ڈالر فیس جمع کرانا لازمی ہوگا۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ H-1B پروگرام کا غلط استعمال بڑھ رہا ہے، اور بعض کمپنیاں اس کے ذریعے امریکی تنخواہوں کو کم کر رہی ہیں یا آئی ٹی کا کام بیرونِ ملک منتقل کر رہی ہیں۔ تاہم وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی ہے کہ نئی فیس پہلے سے جاری ویزوں یا ان کی تجدید پر لاگو نہیں ہوگی۔
اعلان میں مزید کہا گیا کہ “اگر قومی مفاد میں ضرورت پڑی تو مخصوص کیسز میں استثنیٰ دیا جا سکتا ہے۔”
امریکا کے اس فیصلے کے بعد ایمازون، مائیکروسافٹ اور جے پی مورگن جیسی بڑی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو ہدایت دی ہے کہ وہ امریکا سے باہر سفر نہ کریں۔
بزنس انسائیڈر کے مطابق ایمازون نے اپنے پیغام میں کہا:
جو ملازمین 21 ستمبر سے پہلے واپس نہیں آ سکے، وہ نئی ہدایت تک امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔”
بھارت کی سب سے بڑی ٹیک تنظیم ناسکام (NASSCOM)نے کہا کہ اتنے کم وقت میں اتنی بڑی تبدیلی دنیا بھر کے ماہرین، طلبا اور کاروباروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کرے گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی ورک ویزا فیس میں اضافہ صرف ایک مالی فیصلہ نہیں بلکہ سیاسی اور تجارتی دباؤ کا حصہ ہے۔ امریکا حالیہ مہینوں میں بھارت پر روسی تیل کی خریداری کے باعث تجارتی ٹیرف بھی بڑھا چکا ہے، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ آیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں امریکہ نے بھارت کو 41.5 ارب ڈالر کی اشیا برآمد کیں جبکہ بھارت سے 87.3 ارب ڈالر کی درآمدات کیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر امریکہ اپنی امیگریشن پالیسی سخت رکھتا ہے تو بھارتی آئی ٹی سیکٹر کو یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں متبادل مواقع تلاش کرنے پڑ سکتے ہیں۔
امریکی ورک ویزا فیس میں غیر معمولی اضافہ دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے ایک نیا امتحان ہے۔ ایک طرف امریکہ اپنی ملازمتوں کو “محفوظ” کرنا چاہتا ہے، دوسری جانب بھارت اسے مہارت کی عالمی نقل و حرکت پر قدغن سمجھتا ہے۔ اب دنیا کی نظریں واشنگٹن اور نئی دہلی پر ہیں کہ آیا یہ تنازع سفارتی بات چیت سے حل ہوتا ہے یا ٹیک سیکٹر کو ایک نئے بحران میں دھکیل دیتا ہے۔