برطانیہ نے ایک تاریخی سنگِ میل عبور کر لیا ہے۔ امریکی سرمایہ کاروں کی طرف سے 150 ارب پاؤنڈ کی بھاری سرمایہ کاری کے اعلان نے لندن کے مالیاتی اور صنعتی حلقوں میں نئی جان ڈال دی ہے۔ اس پیش رفت نے نہ صرف برطانیہ کی معیشت کے لیے نئی راہیں کھول دی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ پیغام دیا ہے کہ برطانیہ اب بھی ایک مستحکم اور پُرکشش سرمایہ کاری مرکز ہے۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانیہ بریگزٹ کے بعد اپنے معاشی تعلقات کو ازسرِ نو متعین کر رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیرِاعظم سر کیئر اسٹارمر کے درمیان “ٹیک پراسپیرٹی ڈیل” پر دستخط اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد مستقبل کی ٹیکنالوجی میں دوطرفہ تعاون کو فروغ دینا ہے۔
اس ہفتے لندن میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیرِاعظم سر کیئر اسٹارمر نے ایک بڑے معاشی معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت امریکہ برطانیہ میں 150 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ سرمایہ کاری اگلے چند برسوں میں مختلف صنعتی، ٹیکنالوجی اور تحقیقی شعبوں میں کی جائے گی، جس سے تقریباً 7,600 نئی نوکریاں پیدا ہونے کی توقع ہے۔
یہ معاہدہ، جسے “ٹیک پراسپیرٹی ڈیل” کا نام دیا گیا ہے، بنیادی طور پر مصنوعی ذہانت (AI)، کوانٹم کمپیوٹنگ، ڈیٹا سینٹرز، دفاعی ٹیکنالوجی اور جوہری توانائی کے شعبوں میں باہمی تعاون پر مبنی ہے۔ مائیکروسافٹ، گوگل، بلیک اسٹون، بوئنگ اور پالانٹیر جیسی بڑی امریکی کمپنیاں اس سرمایہ کاری کا حصہ ہیں۔
US firms pledge £150bn investment in UK as tech deal signed
The UK government says it has secured £150bn worth of US investment which it hopes will create 7,600 jobs.
The announcement came on the day that US President Donald Trump and Prime Minister Sir Keir Starmer signed an… pic.twitter.com/O20Bf5irp4
— DailyTechs.com (@dailytechs_com) September 19, 2025
معاہدے کے مطابق بلیک اسٹون گروپ اگلے دس سالوں میں 90 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کرے گا — جو اس منصوبے کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اگرچہ اس رقم کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں، مگر ذرائع کے مطابق یہ سرمایہ ڈیٹا سینٹرز، انفراسٹرکچر، اور توانائی کے جدید منصوبوں پر خرچ ہو گا۔
مائیکروسافٹ نے اعلان کیا ہے کہ وہ برطانیہ میں اگلے چار برسوں میں 22 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کرے گی تاکہ مصنوعی ذہانت اور کلاؤڈ سروسز کو مضبوط بنایا جا سکے۔ گوگل بھی پیچھے نہیں رہا — اس نے دو برسوں میں 5 ارب پاؤنڈ خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ ہرٹفورڈ شائر میں اپنے ڈیٹا سینٹر کو وسعت دے سکے۔
دوسری جانب پالانٹیر نے دفاعی شعبے میں 1.5 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری اور 350 نئی نوکریوں کے قیام کا منصوبہ پیش کیا ہے۔
امریکی کمپنی ایمنٹم (Amentum) برطانیہ کے مختلف شہروں میں 3,000 سے زائد نوکریاں فراہم کرے گی، جب کہ بوئنگ 50 سال بعد پہلی مرتبہ برطانیہ میں امریکی فضائیہ کے دو طیاروں کو اپ گریڈ کرے گی — جو دفاعی تعاون کی نئی شروعات ہے۔
وزیرِاعظم سر کیئر اسٹارمر کے مطابق یہ سرمایہ کاری “برطانیہ کی معیشت کے لیے اعتماد کا ووٹ” ہے۔ ان کا کہنا تھا:
“یہ سرمایہ کاریاں صرف معیشت نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کی تشکیل ہیں۔ یہ ثابت کرتی ہیں کہ برطانیہ کھلا، پُرامید اور قیادت کے لیے تیار ہے۔”
تاہم ہر طرف خوشی کا ماحول نہیں۔ کچھ صنعتی شعبے اس معاہدے سے باہر رہ گئے ہیں، جن میں اسٹیل انڈسٹری سرفہرست ہے، کیونکہ حکومت نے اسٹیل ٹیرف میں نرمی کے منصوبے کو مؤخر کر دیا ہے۔
اسی طرح دوا ساز کمپنیاں جیسے ایسٹرا زینیکا اور مرک (Merck) نے برطانیہ میں سرمایہ کاری کے منصوبے مؤخر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بڑھتے ہوئے آپریشنل اخراجات اور پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال کاروبار کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
مرک نے اپنی ایک ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری روک دی اور کہا کہ وہ تحقیقاتی سرگرمیاں امریکہ منتقل کرے گی۔
ایسٹرا زینیکا نے بھی کیمبرج میں اپنے تحقیقی منصوبے پر 200 ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری مؤخر کر دی، جس سے 1,000 نئی نوکریاں پیدا ہونا تھیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جہاں امریکہ برطانیہ میں سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے، وہیں کئی برطانوی کمپنیاں امریکہ میں سرمایہ لگا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر جی ایس کے (GSK) نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے پانچ برسوں میں امریکہ میں 22 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کرے گی۔
برطانیہ کے وزیرِتجارت پیٹر کائل نے کہا کہ یہ سرمایہ کاریاں “ملک کی صنعتی حکمتِ عملی پر بڑھتے ہوئے اعتماد کی عکاسی کرتی ہیں۔” تاہم سابق نائب وزیرِاعظم سر نک کَلیگ نے کہا کہ یہ “سیلیکون ویلی کے دسترخوان کے ٹکڑے” ہیں اور برطانیہ کو خودمختار پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صرف امریکی سرمایہ پر انحصار نہ کرے۔
گزشتہ چند سالوں میں برطانیہ کی معیشت متعدد چیلنجز سے دوچار رہی — بریگزٹ، عالمی کساد بازاری، توانائی کے بحران اور مہنگائی نے صنعتی پیداوار پر گہرا اثر ڈالا۔ امریکی سرمایہ کاری کو اب ایک “تازہ ہوا کا جھونکا” قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ ڈیل اُس حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت برطانیہ اپنی عالمی معاشی حیثیت کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔
تاہم ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر حکومت مقامی صنعتوں کو نظرانداز کرتی رہی تو بیرونی سرمایہ کاری وقتی فائدہ تو دے گی مگر پائیدار ترقی نہیں لا سکے گی۔
سوشل میڈیا پر “#TechProsperityDeal” اور “#UKInvestment” ٹرینڈ کر رہے ہیں۔
زیادہ تر صارفین نے اسے مثبت پیش رفت قرار دیا، مگر کچھ نے سوال اٹھایا کہ کیا غیر ملکی سرمایہ مقامی صنعت کو دبا دے گا؟
ماہرِمعاشیات پروفیسر جوناتھن فیلپس کے مطابق:
“یہ سرمایہ کاری خوش آئند ہے، مگر حکومت کو ساتھ ہی ساتھ اپنے ریگولیٹری ڈھانچے کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ غیر ملکی اثرورسوخ متوازن رہے۔”
یہ معاہدہ بظاہر برطانیہ کی معیشت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے، مگر اس کے طویل المدتی اثرات کئی عوامل پر منحصر ہوں گے۔ اگر مقامی صنعتوں کو بھی برابر مواقع ملیں تو یہ شراکت داری واقعی “Win-Win Situation” ثابت ہو سکتی ہے۔
تاہم اگر فیصلہ سازی مکمل طور پر بیرونی کمپنیوں کے ہاتھوں میں چلی گئی تو یہ برطانیہ کی صنعتی خودمختاری کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ سرمایہ کاری منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھا تو برطانیہ اگلے پانچ برسوں میں یورپ کے سب سے بڑے ٹیکنالوجی حب میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس، اور دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہزاروں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
دوسری جانب، حکومت کے لیے یہ ایک امتحان بھی ہے کہ وہ کس طرح اس سرمایہ کاری کو عوامی فلاح اور مقامی ترقی کے لیے استعمال کرتی ہے۔
امریکہ سے سرمایہ کاری پر مبنی یہ معاہدہ بلاشبہ برطانیہ کے لیے ایک تاریخی موڑ ہے۔ اگرچہ اس کے کچھ پہلوؤں پر تنقید بھی ہو رہی ہے، مگر مجموعی طور پر یہ برطانیہ کے عالمی اعتماد کی بحالی کا اشارہ ہے۔
یہ ڈیل نہ صرف نئی نوکریوں کے دروازے کھولے گی بلکہ برطانیہ کو ٹیکنالوجی اور تحقیق کے میدان میں ایک نئی قوت کے طور پر ابھار سکتی ہے۔