logo

ڈرون فوڈ ڈلیوری: اسکینڈے نیویا میں کھانے کی ہوم ڈلیوری کا نیا دور شروع

ڈرون فوڈ ڈلیوری

ڈرون فوڈ ڈلیوری اسکینڈے نیویا میں حقیقت بن گئی۔ ناروے کی کمپنی ایویانٹ نے سویڈن کے جزیرے ورمدو میں ڈرون کے ذریعے گرم کھانے کی فراہمی شروع کر دی۔

ڈرون فوڈ ڈلیوری شہری زندگی کی تیز رفتاری کا ایک لازمی حصہ بنتی جا رہی ہے۔ جہاں پہلے گرم کھانے کی فوری فراہمی صرف بڑے شہروں تک محدود تھی، اب اسکینڈے نیویا کے دیہی اور جزیرہ نما علاقوں میں بھی یہ سہولت پہنچنے لگی ہے۔

سویڈن، ناروے اور فن لینڈ دنیا کے سب سے زیادہ جزائر رکھنے والے ممالک ہیں، جن کی مجموعی تعداد تقریباً سات لاکھ ہے۔ ان کے طویل ساحلی علاقے اور قدرتی رکاوٹیں اکثر روزمرہ سہولیات میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ تاہم اب ایک نئی ٹیکنالوجی نے یہاں کے لوگوں کے لیے زندگی آسان بنانے کی شروعات کر دی ہے۔

ناروے کی اسٹارٹ اپ کمپنی ایویانٹ (Aviant) نے اسکینڈے نیویا میں پہلی بار ڈرون فوڈ ڈلیوری سروس متعارف کرائی ہے، جس کا آغاز سویڈن کے جزیرے ورمدو (Värmdö) سے کیا گیا ہے۔

ورمدو اسٹاک ہوم سے صرف 13 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہاں تقریباً 46 ہزار افراد رہتے ہیں، جو گرمیوں میں بڑھ کر ایک لاکھ تک ہو جاتے ہیں۔ اس آبادی کے باوجود یہاں گرم کھانے کی فراہمی تقریباً ناممکن تھی۔ اب فروری سے ورمدو کے مرکزی قصبے گستاو سبیرگ (Gustavsberg) اور آس پاس کے علاقوں کے لوگ ڈرون کے ذریعے براہِ راست “باسٹارڈ برگرز” (Bastard Burgers) سے برگر منگوا سکتے ہیں۔

ایویانٹ کے سی ای او لارس ایریک فاگرنیس کے مطابق، اسکینڈے نیویا میں تقریباً 87 ہزار لوگ ایسے ہیں جنہیں کوئی بھی فوڈ ڈلیوری سروس دستیاب نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب لوگ نواحی علاقوں میں رہتے ہیں اور اگر انہیں موقع دیا جائے تو وہ بھی شہریوں کی طرح آن لائن آرڈر کرنا چاہتے ہیں، مگر سہولت کی کمی انہیں محروم رکھتی ہے۔

ابھی یہ منصوبہ “بیٹا فیز” میں ہے، اور ہفتے میں صرف 10 آرڈرز کیے جا رہے ہیں تاکہ نظام کی درستگی پرکھی جا سکے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ جیسے ہی تجربات مکمل ہوں گے، سروس کو توسیع دی جائے گی۔ اگلا ہدف ناروے کا علاقہ نیسوڈن (Nesodden) ہے، جو اوسلو سے صرف چار میل کے فاصلے پر ہے لیکن سڑک کے راستے سے 29 میل کا سفر درکار ہوتا ہے۔

ایویانٹ نے تین سال تک تجربات کے بعد یہ سروس متعارف کرائی۔ ابتدا میں کھانا ٹھنڈا پہنچ جاتا تھا یا فرائز نرم ہو جاتے تھے، لیکن اب خصوصی انسولیٹڈ کنٹینرز تیار کیے گئے ہیں جو کھانے کو گرم رکھتے ہیں۔ فاگرنیس کے مطابق، “لوگ جب پہلی بار ڈرون کے ذریعے کھانا حاصل کرتے ہیں تو انہیں ایسا لگتا ہے جیسے کوئی یو ایف او ان کے دروازے پر اترا ہو۔”

ایویانٹ اگلے دو سالوں میں اسکینڈے نیویا کے مختلف علاقوں میں 40 بیس اسٹیشنز قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کے بعد کمپنی کا ہدف ایسے خطے ہوں گے جن کا جغرافیہ کینیڈا یا امریکہ کے شمالی علاقوں جیسا ہے — جہاں جھیلیں، پہاڑ اور جزائر موجود ہیں۔

اگرچہ تیز ہوا یا خراب موسم کبھی کبھار پروازوں کو روک دیتا ہے، مگر کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ 90 فیصد “اَپ ٹائم” برقرار رکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔ البتہ انتہائی دور دراز علاقوں میں جہاں فاصلے زیادہ اور آرڈرز کم ہیں، وہاں یہ نظام فی الحال معاشی طور پر مؤثر نہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ ڈرون کے ذریعے کھانے کی ترسیل کی کوشش کی گئی ہو۔ برطانیہ میں “اسکائی پورٹس” نے 2022 میں آرکنی جزائر میں اسکول کے بچوں کے لیے ڈرون کے ذریعے کھانے پہنچائے۔ جرمنی میں “ونگ کاپٹر” نے 2023 میں دیہی علاقوں میں روزمرہ کی اشیاء فراہم کیں۔ چین میں صوبہ ژیجیانگ کی حکومت بزرگ شہریوں کو روزانہ کھانے پہنچاتی ہے۔ البتہ ان تمام منصوبوں کو حکومتی یا کارپوریٹ تعاون درکار رہا، کیونکہ اکیلے صارفین کے لیے لاگت زیادہ ہو جاتی ہے۔

برطانیہ میں “اسکائی پورٹس” اب بھی “رائل میل” کے ساتھ مل کر ڈرون سروس چلا رہا ہے۔ کمپنی کے ڈائریکٹر ایلکس براؤن کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بڑا صارف (Anchor Customer) بنیادی لاگت برداشت کرے، تو یہ سروس آمدنی کا مستحکم ذریعہ بن سکتی ہے۔

پس منظر

کووِڈ-19 وبا کے بعد کھانے کی ہوم ڈلیوری کی طلب میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا۔ شہری علاقوں میں تو Uber Eats، DoorDash، FoodPanda اور Deliveroo جیسی ایپس عام ہو چکی ہیں، مگر دیہی علاقوں میں سڑکوں، موسم اور لاجسٹک رکاوٹوں نے اس ترقی کو روک رکھا ہے۔ ڈرون فوڈ ڈلیوری ایسے تمام مسائل کا ممکنہ حل بن کر سامنے آ رہی ہے، کیونکہ اس میں نہ ٹریفک کا مسئلہ ہے اور نہ انسانی ڈلیوری بوائز کی کمی۔

عوامی ردِعمل

ورمدو کے رہائشیوں نے اس نئی سروس کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے اسے “مستقبل کی جھلک” کہا، جبکہ کچھ لوگوں نے پرائیویسی اور شور کی شکایات بھی کی ہیں۔ مقامی کاروباروں کا کہنا ہے کہ اگر اس ٹیکنالوجی کو درست انداز میں نافذ کیا گیا تو یہ سیاحت اور مقامی معیشت دونوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔

تجزیہ

ماہرین کے مطابق، ڈرون فوڈ ڈلیوری سروس نہ صرف کھانے بلکہ طبی سامان، ایمرجنسی سپلائی اور ای-کامرس ترسیل میں بھی انقلاب لا سکتی ہے۔ تاہم، اس کے لیے قانونی ڈھانچے، موسمیاتی حالات، اور شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہوگی۔

مستقبل پر اثرات

اگر اسکینڈے نیویا میں ایویانٹ کا ماڈل کامیاب رہتا ہے، تو اگلے چند سالوں میں دنیا بھر کے ایسے علاقے جہاں روایتی ترسیل مشکل ہے، وہاں بھی ڈرون ڈلیوری ممکن ہو سکے گی۔ پاکستان جیسے ممالک میں بھی، جہاں پہاڑی یا دیہی علاقے ہیں، اس ٹیکنالوجی سے بڑا فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

نتیجہ

ڈرون فوڈ ڈلیوری کا یہ منصوبہ صرف ایک کاروباری تجربہ نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی سہولت کی نئی کہانی ہے۔ اسکینڈے نیویا میں اس کی کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ مستقبل میں انسان اور مشین کا تعاون روزمرہ زندگی کو زیادہ مؤثر، آسان اور دلچسپ بنا دے گا۔