logo

اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملے تیز، 60 فلسطینی شہید دنیا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے قریب

اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملے

اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملے تیز، 60 فلسطینی شہید۔ عالمی برادری فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے قریب ہے، صورتحال خطرناک رخ اختیار کر گئی۔

غزہ ایک بار پھر خون میں نہا گیا — اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملے ہفتے کے روز بھی جاری رہے، جن میں درجنوں فلسطینی شہید ہوئے۔ یہ حملے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب دنیا کے متعدد ممالک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں، جس نے خطے کی صورتحال کو مزید حساس بنا دیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے ہفتے کے روز غزہ شہر اور اردگرد کے علاقوں پر شدید فضائی اور زمینی حملے کیے۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 60 فلسطینی شہید ہوئے جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔ فوج نے کہا کہ کارروائیوں کا ہدف زیرِ زمین سرنگیں اور “بارودی جالوں سے بھری عمارتیں” تھیں۔

یہ سب ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب آسٹریلیا، بیلجیم، برطانیہ اور کینیڈا سمیت 10 ممالک پیر کے روز ایک آزاد فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والے ہیں۔ یہ فیصلہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے ایک بڑی سفارتی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اسرائیلی فوج نے حالیہ دنوں میں غزہ شہر کی بلند عمارتوں کو منہدم کرنے کی مہم تیز کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق، فوج اس وقت شیخ رضوان اور تل الحوا کے علاقوں پر بمباری کر رہی ہے تاکہ مرکزی حصے پر قبضہ کیا جا سکے، جہاں زیادہ تر شہری پناہ لیے ہوئے ہیں۔

فوجی ترجمان کے مطابق، پچھلے دو ہفتوں میں 20 بلند عمارتیں تباہ کی گئی ہیں، اور 500,000 سے زائد افراد غزہ شہر سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ تاہم حماس نے اس دعوے کی تردید کی ہے اور کہا کہ صرف 300,000 افراد شہر چھوڑ چکے ہیں جبکہ 900,000 اب بھی موجود ہیں جن میں اسرائیلی یرغمالی بھی شامل ہیں۔

حماس کے عسکری ونگ نے ٹیلیگرام پر ایک تصویر جاری کی جس میں اسرائیلی یرغمالیوں کو دکھایا گیا، اور خبردار کیا کہ “اسرائیلی حملوں کی شدت ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہی ہے۔”

ادارے COGAT کے مطابق، حماس نے ہفتے کے روز اقوامِ متحدہ کی ٹیموں پر فائرنگ کی اور جنوبی غزہ میں امدادی راستے بند کیے، لیکن حماس نے اسے “جھوٹا الزام” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “اصل میں اسرائیلی فوج کے زیرِ سایہ مسلح گروہ امدادی ٹرک لوٹ رہے ہیں۔”

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق، تقریباً 65,000 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، 13,000 سے زائد خیمے تباہ ہو چکے ہیں، اور 1,800 سے زائد عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ اکثر علاقے قحط، بیماری اور نقل مکانی کا شکار ہیں۔

پس منظر

غزہ پر اسرائیل کی کارروائیاں تقریباً دو سال سے جاری ہیں۔ یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہوئی جب حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کے نام پر وسیع فوجی آپریشن شروع کیا۔ اس کے بعد سے غزہ میں بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے — اسپتال، اسکول، رہائشی عمارتیں اور پناہ گاہیں سب نشانہ بن چکی ہیں۔

بین الاقوامی تنظیمیں جیسے ریڈ کراس، ورلڈ فوڈ پروگرام اور یو این او سی ایچ اے مسلسل خبردار کر رہی ہیں کہ غزہ “دنیا کی بدترین انسانی تباہی” کا سامنا کر رہا ہے۔

عالمی ردِعمل

دنیا کے متعدد ممالک نے حالیہ ہفتوں میں اسرائیلی پالیسیوں پر شدید تنقید کی ہے۔ آسٹریلیا، بیلجیم، برطانیہ، آئرلینڈ اور کینیڈا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کے قریب ہیں۔ یہ اقدام ایک تاریخی لمحہ تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے دو ریاستی حل (Two-State Solution) کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔

ادھر قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک روانہ ہو چکے ہیں، جہاں غزہ کی جنگ، انسانی بحران اور سفارتی حل پر بات ہوگی۔

تجزیہ

ماہرین کے مطابق، اسرائیل کے موجودہ حملے صرف عسکری حکمتِ عملی نہیں بلکہ سفارتی دباؤ کے ردعمل کے طور پر بھی دیکھے جا رہے ہیں، کیونکہ دنیا کے بڑے ممالک اب فلسطین کو تسلیم کرنے کے حامی ہوتے جا رہے ہیں۔ بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کر لیا جاتا ہے، تو اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر قانونی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مستقبل پر اثرات

فلسطینی ریاست کی ممکنہ تسلیم شدگی سے خطے کی سیاست میں ایک بڑا موڑ آسکتا ہے۔ یہ قدم اگر اقوامِ متحدہ کی سطح پر منظوری حاصل کر لیتا ہے، تو اسرائیل پر جنگی جرائم کی تحقیقات اور اقتصادی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ دوسری جانب، حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کے لیے یہ بین الاقوامی حمایت کا نیا باب ثابت ہو سکتا ہے، جو انہیں سیاسی طور پر مزید مضبوط بنائے گا۔

نتیجہ

غزہ پر جاری حملے اور بڑھتی ہوئی ہلاکتیں ایک المناک حقیقت ہیں، مگر عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کے حق میں بڑھتے ہوئے قدم امید کی کرن دکھا رہے ہیں۔ اگر دنیا متحد ہو کر اس فیصلے کو عملی شکل دیتی ہے، تو شاید برسوں سے جاری یہ خونریز تنازع ایک پائیدار امن کی طرف بڑھ سکے۔