logo

پاکستان میں پانی کے ذخائر بلند سطح پر، ربیع کی فصلوں کے لیے تاریخی خوشخبری

پاکستان میں پانی کے ذخائر

پاکستان میں پانی کے ذخائر تاریخی سطح پر پہنچ گئے، ربیع کی فصلوں کے لیے خوشخبری۔ گندم سمیت تمام فصلوں کو بھرپور فائدہ متوقع ہے۔

پاکستان کئی برسوں بعد ایک ایسی مثبت خبر کے ساتھ زرعی سال کا آغاز کرنے جا رہا ہے جس نے کسانوں اور ماہرین زراعت دونوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔ ملک کے بڑے آبی ذخائر اس وقت تقریباً اپنی مکمل گنجائش پر پہنچ چکے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والا ربیع سیزن ملک کی زرعی پیداوار کے لیے نہایت زرخیز ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب گزشتہ سالوں میں سیلاب اور موسمی تبدیلیوں کے باعث فصلوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس سال پانی کے ذخائر کا بلند ہونا اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کی زراعت ایک نئے اعتماد کے ساتھ بحالی کی جانب گامزن ہے۔

پاکستان کے بڑے آبی ذخائر، جن میں تربیلا، منگلا اور چشمہ بیراج شامل ہیں، اس وقت تاریخی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر 13.1 ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی ذخیرہ کیا گیا ہے، جو پچھلے کئی سالوں کے مقابلے میں نمایاں بہتری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مقدار ربیع سیزن کی ضروریات کے تقریباً 99 فیصد کے برابر ہے، جو زراعت کے لیے ایک غیر معمولی مثبت اشارہ ہے۔

تربیلا ڈیم، جو پاکستان کا سب سے بڑا ذخیرہ آب ہے، اپنی زیادہ سے زیادہ سطح یعنی 1,550 فٹ تک بھر چکا ہے۔ اس سے نیچے موجود چشمہ بیراج نے بھی 649 فٹ کی بلند ترین سطح حاصل کر لی ہے۔ دوسری جانب منگلا ڈیم میں بھی پانی کی سطح 1,239.6 فٹ تک پہنچ گئی ہے، جو اس کی کل گنجائش 1,242 فٹ کے قریب ہے۔ اس وقت منگلا میں تقریباً 7.1 MAF پانی موجود ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں غیر معمولی اضافہ ہے۔

پچھلے سال 2024 میں منگلا ڈیم کی سطح 1,224 فٹ تک رہی تھی جبکہ 2023 میں یہ 1,233 فٹ سے کچھ کم تھی۔ اس سال کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پانی کی دستیابی میں تسلسل کے ساتھ بہتری آ رہی ہے۔ تربیلا ڈیم نے بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ 2024 میں اس کی سطح 1,549 فٹ تھی جبکہ اس سال یہ مکمل 1,550 فٹ تک پہنچ چکا ہے۔

ادھر دریائے سندھ، جہلم، چناب اور ستلج میں بہاؤ معمول کے مطابق جاری ہے۔ اگرچہ دریائے ستلج کے کوٹری بیراج اور گنڈا سنگھ والا کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب موجود ہے، لیکن ماہرین کے مطابق یہ صورتِ حال قابو میں ہے اور کسی بڑے خطرے کا باعث نہیں بنے گی۔

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مطابق صوبوں کو ابھی تک نئے پانی کے حصے مختص نہیں کیے گئے کیونکہ پانی کی تقسیم سے متعلق اجلاس اکتوبر کے اوائل میں متوقع ہے۔ تاہم ابتدائی اندازوں کے مطابق اس سال ربیع فصلوں کے لیے 35 سے 36 MAF پانی دستیاب ہوگا، جو 1991 کے واٹر اپورشنمنٹ ایکارڈ کے تحت مطلوبہ مقدار کے قریب ہے۔

زرعی ماہرین کے مطابق یہ صورتحال گندم، چنے، سرسوں، مسور اور دیگر ربیع فصلوں کے لیے مثالی ہے۔ خاص طور پر گندم، جو پاکستان کی خوراکی معیشت میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے، اس سال پانی کی وافر فراہمی سے ریکارڈ پیداوار حاصل کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بہتر آبی انتظام اور جدید آبپاشی نظام سے کسانوں کو زیادہ منافع حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

پنجاب کے کئی علاقوں میں اگرچہ پچھلے سیلابوں کے باعث زمینوں پر ریت جمع ہو گئی ہے، مگر زرعی ماہرین کے مطابق مناسب جِلا اور زرخیزی بحالی کے بعد یہ زمینیں دوبارہ قابلِ کاشت ہو جائیں گی۔ پانی کی موجودہ صورتحال کسانوں کے اعتماد میں اضافے کا باعث بنی ہے، اور دیہی معیشت میں اس کے مثبت اثرات آئندہ چند مہینوں میں ظاہر ہوں گے۔

پس منظر

پاکستان کی زرعی معیشت ہمیشہ سے دریاؤں پر منحصر رہی ہے۔ ملک کے بیشتر علاقے بارشوں پر نہیں بلکہ انہی آبی ذخائر سے حاصل ہونے والے پانی پر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں، کبھی خشک سالی اور کبھی شدید بارشوں کے باعث پانی کی دستیابی غیر متوازن رہی، جس سے نہ صرف گندم اور چاول بلکہ کپاس جیسی نقد آور فصلیں بھی متاثر ہوئیں۔

ماضی میں 2018 سے 2022 کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ ڈیم اپنی نصف گنجائش تک بھی نہ بھر سکے۔ نتیجتاً کسانوں کو کم پانی ملا اور پیداوار میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ لیکن 2025 کے آغاز میں آنے والی مثبت موسمی تبدیلیاں اور بہتر پانی کا انتظام پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے امید کی نئی کرن بن کر ابھرے ہیں۔

عوامی و ماہرین کا ردعمل

کسان تنظیموں اور زرعی ماہرین نے اس پیش رفت کو “خوشحالی کی علامت” قرار دیا ہے۔ پاکستان کسان اتحاد کے مطابق، اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو اس سال گندم کی پیداوار گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 10 سے 15 فیصد زیادہ ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب، ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بہتر پانی دستیابی کے ساتھ ساتھ حکومت کو آبی ضیاع روکنے اور جدید آبپاشی نظام کو فروغ دینے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے بھی اس خبر کو بڑے مثبت انداز میں سراہا، بعض نے اسے “پاکستان کی خوشخبریوں میں سے ایک” قرار دیا۔

تجزیہ

پانی کے ذخائر کا بلند ہونا صرف زراعت ہی نہیں بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی خوش آئند ہے۔ ایک مضبوط زرعی بنیاد خوراکی تحفظ کو یقینی بناتی ہے، جس سے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ممکن ہوتا ہے۔ گندم اور چنے کی بہتر پیداوار حکومت کو درآمدی دباؤ سے بچا سکتی ہے، جو زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے بھی مفید ہوگا۔

اس کے علاوہ، بہتر آبی صورتحال سے دیہی روزگار کے مواقع بڑھیں گے، کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور دیہی معیشت میں توازن پیدا ہوگا۔ یہ صورتحال حکومت کو سبسڈی اور امدادی پروگراموں پر کم انحصار کرنے کی بھی اجازت دے سکتی ہے۔

مستقبل پر اثرات

اگر موجودہ آبی صورتحال برقرار رہی تو 2026 میں پاکستان زرعی پیداوار میں خودکفالت کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ گندم اور چنے کی اضافی پیداوار نہ صرف اندرونی ضروریات پوری کرے گی بلکہ برآمدی امکانات بھی بڑھا سکتی ہے۔

مزید برآں، بہتر پانی مینجمنٹ پالیسیوں کے تحت حکومت مستقبل میں چھوٹے آبی ذخائر بنانے اور بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے پر بھی کام کر سکتی ہے۔ اس سے خشک علاقوں جیسے بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے کسان بھی مستفید ہوں گے۔

اختتامی کلمات

پاکستان میں پانی کے ذخائر کا بلند ہونا ایک تاریخی موقع ہے جو ملک کی زراعت، معیشت اور کسانوں کے لیے نئی امید بن کر آیا ہے۔ اگر حکومت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آبی وسائل کا دانشمندانہ استعمال کیا تو یہ لمحہ آنے والے کئی برسوں تک خوشحالی کی بنیاد ثابت ہو سکتا ہے۔