فرانس اور سعودی عرب نے اقوام متحدہ میں ایک اہم سربراہی اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے جو جنرل اسمبلی کے آغاز سے ایک روز قبل منعقد ہوگا۔ اجلاس کا مرکزی موضوع غزہ میں جاری جنگ اور دو ریاستی حل (Two-State Solution) کا مستقبل ہوگا۔ المی رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات سے آزاد فلسطینی ریاست کا تصور خطرے میں ہے۔ ذرائع کے مطابق، فرانس اس موقع پر فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کرنے کا اعلان کرے گا، جبکہ بیلجیم سمیت کئی یورپی ممالک بھی اس سمت بڑھنے پر غور کر رہے ہیں۔
یہ پیش رفت ان ممالک کے فیصلوں کے بعد سامنے آئی ہے جنہوں نے حال ہی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا — جن میں برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال شامل ہیں۔ ان ممالک کے اقدام پر اسرائیل اور امریکا نے شدید ردعمل دیا تھا۔ اس اجلاس کا اسرائیل اور اس کے بڑے اتحادیوں نے بائیکاٹ کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے اجلاس کو “تماشہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “یہ دہشت گردی کو انعام دینے کے مترادف ہے۔” دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو اندرونی دباؤ کا سامنا ہے کیونکہ عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کے حق میں بیانیہ مضبوط ہو رہا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق، حکومت مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصے ضم کرنے پر غور کر رہی ہے — مگر اس کے لیے انہیں امریکا کی حمایت درکار ہے، جو وہ نیویارک میں ہونے والے اجلاس کے دوران حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اقوام متحدہ کو امید ہے کہ یہ اجلاس دو ریاستی حل کے لیے ایک واضح اور قابلِ عمل روڈ میپ تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہوگا۔
BREAKING: Israeli warplanes bomb the headquarters of the Palestinian Medical Relief Society in western Gaza City. pic.twitter.com/4IZdhTIMx9
— Quds News Network (@QudsNen) September 22, 2025
یہ اجلاس دراصل “نیویارک ڈیکلریشن” کو آگے بڑھانے کی کوشش ہے — جسے جولائی میں فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس کے بعد منظور کیا گیا تھا۔
اس اعلامیے میں حماس سے ہتھیار ڈالنے، یرغمالیوں کی رہائی، اور غزہ کے لیے انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا گیا تھا۔ اجلاس کی قیادت فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کریں گے، جبکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوں گے۔
اسرائیل نے عندیہ دیا ہے کہ وہ فرانس کے خلاف جوابی اقدامات پر غور کر رہا ہے، جن میں یروشلم میں فرانسیسی قونصل خانہ بند کرنا، سفارتکاروں کی ملک بدری، اور انٹیلی جنس تعاون محدود کرنا شامل ہیں۔
اس دوران، اسرائیل نے عالمی مخالفت کے باوجود غزہ میں حملے تیز کر دیے ہیں۔ حالیہ فضائی بمباری میں صبرا محلے میں ایک ہی خاندان کے 25 افراد شہید ہوئے۔
ٹینکوں اور بحری بمباری کے باعث تباہی کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حملے دہشت گرد اہداف پر کیے جا رہے ہیں، مگر انسانی حقوق کے ادارے ان حملوں کو “اجتماعی سزا” قرار دے رہے ہیں۔
عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کے حق میں بڑھتی حمایت ایک نئے سفارتی دور کا آغاز ہے۔ اگر فرانس اور دیگر یورپی ممالک فلسطین کو تسلیم کر لیتے ہیں تو یہ امریکا اور اسرائیل کے لیے سفارتی دباؤ میں اضافے کا باعث بنے گا۔ دوسری جانب، عرب ممالک کی مشترکہ حکمتِ عملی فلسطینی عوام کے لیے ایک سیاسی جیت بن سکتی ہے۔ یہ اجلاس فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں ایک اہم سنگِ میل بن سکتا ہے۔ تاہم اسرائیل کی جارحانہ پالیسی، امریکا کی غیر واضح حمایت، اور عالمی طاقتوں کے مفادات ابھی بھی اس عمل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
فلسطینی ریاست کا قیام شاید قریب محسوس ہو رہا ہے، مگر حقیقت میں امن کا راستہ اب بھی طویل اور مشکل ہے۔ دنیا کے طاقتور ممالک اگر اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر انصاف کی حمایت کریں، تو شاید فلسطین کے عوام کو وہ آزادی مل جائے جس کے وہ دہائیوں سے منتظر ہیں۔