ایپل اور یورپی یونین کے درمیان جاری کشمکش ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ ایپل نے یورپی ریگولیٹرز پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ برسلز کے بیوروکریٹس اس کے بند نظام یعنی “کلوزڈ ایکو سسٹم” کو غیر منصفانہ انداز میں نشانہ بنا رہے ہیں۔ایپل کے سینئر نائب صدر گریگ جوسوِیاک کے مطابق یورپی پالیسیز “ایپل کے جادوئی تجربے کو ختم کر رہی ہیں” جو صارفین کو ایک محفوظ، مربوط اور منفرد ڈیجیٹل دنیا فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے نئی مصنوعات کی لانچنگ سے قبل واضح کیا کہ کمپنی کو “یورپ میں ایک سنجیدہ خطرہ” درپیش ہے۔ ایپل کا مؤقف ہے کہ اس کا “والڈ گارڈن ماڈل” — یعنی ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کا مکمل انضمام — ہی اس کے معیار، سکیورٹی اور تخلیقی کنٹرول کی بنیاد ہے۔ لیکن یورپی یونین سمجھتی ہے کہ یہی بند نظام مسابقت کو ختم کر رہا ہے اور دیگر کمپنیوں کو مارکیٹ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے۔
یہ تنازعہ 2022 میں اُس وقت شروع ہوا جب یورپی یونین نے “ڈیجیٹل مارکیٹس ایکٹ (DMA)” منظور کیا — ایک ایسا قانون جس کا مقصد بڑی ٹیک کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کرنا تھا۔ 2024 میں اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد، ایپل کو مجبور کیا گیا کہ وہ: دیگر برانڈز کے ہیڈفونز اور ڈیوائسز کو iPhone سے جوڑنے کی اجازت دے۔ نوٹیفکیشنز کو صرف Apple Watch تک محدود رکھنے کے بجائے دوسرے اسمارٹ واچز پر بھی دستیاب بنائے۔ AirDrop کے ذریعے دوسرے پلیٹ فارمز کے ساتھ فائل شیئرنگ ممکن بنائے۔
Apple blocked iPhone mirroring on Mac for the entire EU, blaming the Digital Services Act. Live Translation is axed next.
Feels like a slap to European users while everyone else enjoys the shiny features.
What gets cut next? Will iOS 27 even show up in the EU? pic.twitter.com/wl3YzebdSU
— Piotrek Bodera (@nerdontour) September 18, 2025
ایپل کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اس کے پرائیویسی اور سکیورٹی اصولوں کے منافی ہیں۔ جبکہ یورپی کمیشن کا مؤقف ہے کہ یہ قانون صارفین کے “انتخاب کے حق” کے لیے ضروری ہے۔ اپریل 2024 میں یورپی یونین نے ایپل پر 500 ملین یورو جرمانہ عائد کیا، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ایپل اپنے مقابل کمپنیوں کو غیر منصفانہ طور پر نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب تنازعہ مکمل طور پر عوامی سطح پر آ گیا۔
ایپل نے حال ہی میں اپنی نئی AirPods Pro 3 متعارف کرائیں — جن میں “Live Translation” کا نیا فیچر شامل کیا گیا ہے جو مختلف زبانوں میں حقیقی وقت میں ترجمہ فراہم کرتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایپل نے یہ فیچر یورپی صارفین کے لیے بند کر دیا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی فی الحال صرف iPhone اور AirPods کے درمیان موجود مربوط نظام پر انحصار کرتی ہے،
اور یورپی تقاضوں کے مطابق اسے کھولنا صارفین کی سکیورٹی اور پرائیویسی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ ایپل کے عہدیدار جوسوِیاک نے سخت لہجے میں کہا:
“وہ ہم سے ہمارا جادو چھیننا چاہتے ہیں، اور ہمیں باقی کمپنیوں کی طرح بنانا چاہتے ہیں۔”
ایپل ہمیشہ سے اپنے “والڈ گارڈن” ماڈل پر فخر کرتا رہا ہے۔ یہ وہی فلسفہ ہے جس کے تحت کمپنی اپنے تمام پروڈکٹس — جیسے iPhone، iPad، MacBook، اور Apple Watch —
کو ایک ہی نظام کے تحت مربوط رکھتی ہے تاکہ صارفین کو ایک بے مثال تجربہ فراہم کیا جا سکے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ حکمتِ عملی مارکیٹ مسابقت کو ختم کرتی ہے اور ڈیولپرز کے لیے نقصان دہ ہے۔ مثلاً، iOS پر صرف App Store کے ذریعے ایپس کی اجازت، یا AirDrop کا صرف ایپل ڈیوائسز تک محدود رہنا،
یہ سب اقدامات کمپنی کے بند ماحول کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔
یورپی صارفین کی نمائندہ تنظیم BEUC کے ترجمان سباستیئن پینٹ کا کہنا ہے: “یہ اقدامات صارفین کے حق میں ہیں کیونکہ اب انہیں اپنی پسند کے آلات استعمال کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔” دوسری جانب ایپل کے حامی صارفین کا کہنا ہے کہ یورپ “جدت کے دشمن” بن رہا ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق، یورپی یونین اپنی ڈیجیٹل پالیسیوں کے ذریعے امریکی کمپنیوں پر ضرورت سے زیادہ دباؤ ڈال رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق، ایپل اور یورپی یونین کا یہ تصادم صرف ایک کمپنی کا مسئلہ نہیں بلکہ ڈیجیٹل دنیا کے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر یورپی یونین کی پالیسیاں کامیاب ہو جاتی ہیں تو دیگر کمپنیاں — جیسے گوگل، میٹا، اور مائیکروسافٹ — بھی اپنے نظام کو کھولنے پر مجبور ہوں گی۔ لیکن اگر ایپل اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے، تو یہ پرائیویسی بمقابلہ آزادی کے عالمی مباحثے کو مزید شدت دے سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایپل ممکنہ طور پر یورپی قوانین میں نرمی کے لیے مذاکرات کرے گا، لیکن مکمل مطابقت اختیار کرنا اس کے برانڈ فلسفے کے خلاف ہے۔ دوسری جانب، یورپی کمیشن اپنے مؤقف پر قائم ہے کہ بڑی ٹیک کمپنیوں کو کھلے نظام (Open Ecosystem) کی طرف جانا ہی ہوگا۔
آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایپل اور یورپی یونین کی جنگ صرف ٹیکنالوجی نہیں، بلکہ فلسفے کی جنگ ہے — ایک طرف “مربوط جادوئی نظام” اور دوسری طرف “صارف کی آزادی”۔ وقت ہی بتائے گا کہ جیت کس کی ہوگی، مگر یہ واضح ہے کہ
ڈیجیٹل دنیا میں اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہے گا۔