ایران کا ایٹمی پروگرام ایک بار پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال اور عالمی طاقتوں کی کشیدگی کے بیچ، تہران کے تازہ بیانات نے ایک نیا تنازع جنم دیا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ ایران کسی بیرونی دباؤ کے تحت اپنے ایٹمی منصوبے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب یورپی ممالک اور امریکہ ایران پر دوبارہ سخت اقتصادی پابندیاں لگانے پر غور کر رہے ہیں۔ عالمی برادری میں یہ بحث شدت اختیار کر گئی ہے کہ آیا ایران واقعی پُرامن مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی استعمال کر رہا ہے یا اس کے عزائم کچھ اور ہیں۔
تہران میں خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو ایران کے “قومی مفاد کے خلاف” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ مذاکرات نہیں بلکہ ڈکٹیٹیشن ہیں، کیونکہ واشنگٹن کی ایک ہی شرط ہے — ایران اپنا ایٹمی پروگرام بند کرے۔” خامنہ ای نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ ایران یورینیم کی افزودگی جاری رکھے گا کیونکہ یہ عمل نہ صرف توانائی کے لیے بلکہ زراعت، طب، ماحولیات اور صنعت کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
ان کے مطابق ایران نے یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر لیا ہے، جبکہ ایٹمی ہتھیاروں کے لیے 90 فیصد افزودگی درکار ہوتی ہے۔ خامنہ ای نے واضح کیا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوئی نیت نہیں، بلکہ وہ صرف اس ٹیکنالوجی کو پُرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “دنیا کے دس ممالک میں سے ایران وہ واحد ملک ہے جس نے افزودگی کی صلاحیت حاصل کی مگر ایٹمی بم بنانے کا فیصلہ نہیں کیا۔”
Under current circumstances, negotiating with the US govt. does nothing to serve our national interests, because the American side has already determined the negotiations’ outcome in advance: the shutdown of nuclear enrichment in Iran.
This isn’t a negotiation – it’s dictation.— Khamenei.ir (@khamenei_ir) September 23, 2025
ادھر بین الاقوامی برادری کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یورپی یونین، جرمنی، فرانس اور برطانیہ ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں لگانے کے لیے متفق ہو گئے ہیں۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے یورپی وزرائے خارجہ سے ملاقات کی لیکن کسی مثبت پیش رفت کا اعلان نہیں کیا جا سکا۔
جرمن وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ “ایران کو کبھی ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیے جائیں گے، تاہم ہم سفارتی حل کے امکانات کو بند نہیں کرنا چاہتے۔” اس بیان سے واضح ہوا کہ یورپ اب بھی ایک محدود مذاکراتی راستہ کھلا رکھنا چاہتا ہے، مگر ایران کی سخت مؤقف نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق، ایران اور یورپی ممالک نے مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے، اور عباس عراقچی کو چند دن کا وقت دیا گیا ہے تاکہ وہ کسی نئے معاہدے کی صورت میں 2015 کے “ایران نیوکلیئر ڈیل” کی بحالی کی کوشش کر سکیں۔ اگر اس دوران کوئی معاہدہ نہ ہوا تو امریکہ اور یورپی یونین ایران پر دوبارہ وہ پابندیاں نافذ کر دیں گے جو 2018 میں ختم کی گئی تھیں۔
دوسری جانب، امریکہ کے صدر نے جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران ایران کو “دنیا کا سب سے بڑا دہشت گردی کا سرپرست” قرار دیا اور کہا کہ “ہم ایران کو خطرناک ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔” صدر کے اس بیان نے خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔
اسی دوران اسرائیل نے جون میں ایران کی ایٹمی تنصیبات پر فوجی کارروائی کی تھی جس کے بعد صورتحال مزید بگڑ گئی۔ اس حملے کے جواب میں ایران نے اپنے پروگرام کو “مزید تیز کرنے” کا اعلان کیا۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے سربراہ رافیل گراسی نے تصدیق کی کہ امریکہ ایران کے ساتھ مختلف رابطوں پر غور کر رہا ہے مگر تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا۔
یورپ نے ایران کے لیے تین واضح شرائط رکھی ہیں:
براہِ راست مذاکرات کی بحالی
آئی اے ای اے کو مکمل رسائی
افزودگی کے مقامات کی تفصیلی معلومات
تہران نے ان شرائط کو “سیاسی دباؤ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ایران نے ایک متوازن تجاویز کا خاکہ پیش کیا ہے جس پر مغرب کو مثبت ردعمل دینا چاہیے۔”
ایران کے ایٹمی پروگرام کا آغاز 1950 کی دہائی میں ہوا جب امریکہ نے “ایٹم برائے امن” منصوبے کے تحت ایران کو محدود تعاون کی پیشکش کی۔ تاہم 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد یہ تعاون ختم ہو گیا اور ایران نے اپنا پروگرام خودمختار انداز میں جاری رکھا۔
2015 میں “جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA)” کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی محدود کرنے پر اتفاق کیا، اور اس کے بدلے میں اقتصادی پابندیاں نرم کی گئیں۔ مگر 2018 میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر لی جس کے بعد ایران نے دوبارہ اپنے پروگرام میں تیزی لانا شروع کر دی۔
اس وقت سے اب تک تہران اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یورپ کے ثالثی کردار کے باوجود کوئی دیرپا حل سامنے نہیں آیا۔
ایران میں عوامی سطح پر اس بیان کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایرانی صارفین نے “#IranRights” اور “#NoDictation” جیسے ہیش ٹیگز کے ذریعے اپنے ملک کی خودمختاری پر فخر کا اظہار کیا۔ دوسری جانب، کچھ اصلاح پسند حلقوں نے خبردار کیا کہ عالمی تنہائی ایران کی معیشت کو مزید کمزور کر سکتی ہے۔
عالمی سطح پر ردعمل ملا جلا ہے۔ چین اور روس نے ایران کی خودمختاری کی حمایت کی ہے، جبکہ یورپ نے مذاکرات کی بحالی پر زور دیا ہے۔ واشنگٹن نے ایران کے مؤقف کو “غیر ذمے دارانہ” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ “یہ رویہ عالمی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔”
ایران کا ایٹمی پروگرام صرف ٹیکنالوجی کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سفارتی اور سیاسی تنازع ہے جو طاقت کے عالمی توازن سے جڑا ہوا ہے۔ خامنہ ای کے حالیہ بیانات نے واضح کر دیا ہے کہ ایران اب کسی بیرونی دباؤ کے آگے جھکنے کو تیار نہیں۔
یہ مؤقف اگرچہ قومی خودمختاری کی علامت سمجھا جا سکتا ہے، مگر اس کے ساتھ اقتصادی مشکلات میں اضافہ یقینی ہے۔ پابندیوں کی صورت میں ایران کی معیشت پر مزید دباؤ بڑھے گا، تیل کی برآمدات متاثر ہوں گی اور عام عوام کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس کے برعکس، اگر مذاکرات دوبارہ شروع ہوتے ہیں تو ایران کو نہ صرف پابندیوں میں نرمی مل سکتی ہے بلکہ عالمی سرمایہ کاری کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔ تاہم فی الحال حالات اس سمت جاتے نظر نہیں آ رہے۔
اگر ایران نے افزودگی کا عمل جاری رکھا اور آئی اے ای اے کو مکمل رسائی نہ دی تو امکان ہے کہ امریکہ اور یورپ سخت پابندیاں نافذ کر دیں گے۔ ان پابندیوں کا اثر نہ صرف ایران بلکہ تیل کی عالمی منڈیوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔
دوسری طرف، ایران کے اتحادی ممالک جیسے چین اور روس ممکنہ طور پر تہران کے ساتھ مزید تعاون بڑھا سکتے ہیں۔ اس سے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن مزید بدل سکتا ہے اور خطے میں نئی صف بندیاں جنم لے سکتی ہیں۔
ایران کا ایٹمی پروگرام ایک بار پھر عالمی سیاست کے سب سے حساس مسائل میں شامل ہو گیا ہے۔ خامنہ ای کے حالیہ بیانات نے واضح کر دیا کہ تہران اپنے فیصلوں پر قائم ہے اور کسی بیرونی دباؤ کے آگے نہیں جھکے گا۔
تاہم مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آیا ایران اور عالمی طاقتیں سفارتکاری کا دروازہ کھلا رکھتی ہیں یا نہیں۔ اگر مذاکرات بند ہو گئے تو مشرقِ وسطیٰ ایک نئے بحران کی طرف بڑھ سکتا ہے۔