logo

پاکستان میں غربت: عالمی بینک کی رپورٹ نے معاشی خطرات کی نئی گھنٹی بجا دی

پاکستان میں غربت

پاکستان میں غربت بڑھ کر 25 فیصد سے تجاوز کرگئی، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق معاشی کمزوریوں اور پالیسی ناکامیوں نے عوامی مشکلات بڑھا دی ہیں۔

پاکستان میں غربت کا بڑھتا ہوا بحران محض ایک اقتصادی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک سماجی و انسانی المیہ بن چکا ہے۔ عالمی بینک کی تازہ رپورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ ملک میں غربت کی شرح گزشتہ آٹھ برسوں کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ہے۔ یہ ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ سنگین مسئلہ ہے — کیونکہ یہ عام شہری کی روزمرہ زندگی، اس کے معیارِ زندگی، اور اس کی امیدوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے۔
رپورٹ کے انکشافات نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ آخر وہ کون سی معاشی پالیسیاں ہیں جن کے باوجود حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑ گئے؟ ماہرین کے مطابق پاکستان کے معاشی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کے بغیر یہ رجحان مزید خطرناک ہوسکتا ہے۔

عالمی بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 2024 میں بڑھ کر 25.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو گزشتہ آٹھ برسوں میں سب سے بلند سطح ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ تقریباً ہر چوتھا پاکستانی شہری اب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ صورتحال محض معاشی اعدادوشمار کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک گہرے نظامی بحران کی علامت ہے جو پالیسیوں کی ناکامی، آمدنی میں جمود، اور عوامی خدمات کی کمزوریوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود آمدنی کے ذرائع میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ روزگار کے مواقع سکڑ رہے ہیں، جبکہ 15 سے 24 سال کے نوجوانوں میں سے 37 فیصد نہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں نہ کسی تربیت یا ملازمت سے وابستہ ہیں۔ یہ ایک سنگین اشارہ ہے کہ نوجوان طبقہ معیشت سے کٹتا جا رہا ہے، جس کا اثر آنے والی دہائیوں میں ملکی پیداواری صلاحیت پر پڑے گا۔

مزید برآں، رپورٹ میں کہا گیا کہ دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 28 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، جہاں زیادہ تر لوگ زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔ مگر زرعی شعبہ موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی اور غیر پیداواری زمینوں کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ دوسری جانب شہری علاقوں میں غربت نسبتاً کم یعنی 10 فیصد کے قریب ہے، لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی نے وہاں بھی زندگی کے معیار کو گرا دیا ہے۔

بلوچستان ملک کا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ قرار دیا گیا ہے، جہاں غربت کی شرح 42 فیصد سے زائد ہے۔ صوبے کے کئی اضلاع میں بنیادی سہولیات جیسے صاف پانی، صحت اور تعلیم تک رسائی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ سندھ میں یہ شرح 24 فیصد، خیبر پختونخوا میں 29 فیصد، اور پنجاب میں 16 فیصد کے قریب ہے۔ تاہم چونکہ پنجاب کی آبادی سب سے زیادہ ہے، اس لیے ملک کے 40 فیصد غریب اسی صوبے میں رہتے ہیں۔

عالمی بینک کے ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ معاشی عدم مساوات میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ امیر طبقے کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ غریب گھرانے بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے قرضوں اور غیر رسمی آمدنی پر انحصار کر رہے ہیں۔ کھپت کے اعداد و شمار کے مطابق امیر ترین گھرانے غریب طبقے کے مقابلے میں چار گنا زیادہ خرچ کرتے ہیں۔

رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کی معیشت غیر مستحکم ہے اور پالیسی فیصلوں میں تسلسل کا فقدان نظر آتا ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب نے نہ صرف لاکھوں افراد کو بے گھر کیا بلکہ 1 کروڑ 30 لاکھ افراد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا۔ اس کے بعد توانائی کی قیمتوں اور مہنگائی نے عوام کی قوتِ خرید کو بری طرح متاثر کیا۔

عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر بولورما آمگابازار نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ادارہ جاتی کمزوری اور اصلاحات کا فقدان ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر حکومت پائیدار ترقی چاہتی ہے تو اسے معیشت میں نجی شعبے کی شمولیت بڑھانی ہوگی، بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی، اور تعلیم و تربیت کے شعبے پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔

پس منظر

پاکستان میں غربت کی کمی کی شرح 2001 سے 2015 کے دوران نمایاں تھی۔ اس عرصے میں اوسط سالانہ شرح میں 3 فیصد کمی ہوئی تھی، مگر 2018 کے بعد یہ رفتار نہ صرف رک گئی بلکہ الٹ کر بڑھنے لگی۔ معاشی جھٹکوں، زرمبادلہ کے بحران، اور پالیسیوں کے غیر یقینی تسلسل نے ترقی کی رفتار کو سست کر دیا۔

2022 کے سیلاب اور اس کے بعد کی مہنگائی نے ملک کی درمیانی اور نچلی طبقات پر شدید اثر ڈالا۔ اس دوران، سماجی تحفظ کے پروگرام جیسے احساس یا بینظیر انکم سپورٹ نے وقتی ریلیف تو فراہم کیا مگر پائیدار غربت میں کمی لانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔

ردِعمل

رپورٹ کے بعد سوشل میڈیا پر شدید بحث چھڑ گئی۔ کئی صارفین نے حکومت پر تنقید کی کہ وہ صرف قرضوں اور وقتی اقدامات پر انحصار کر رہی ہے جبکہ اصل اصلاحات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق یہ رپورٹ حکومت کے لیے “سخت وارننگ” ہے، کیونکہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو غربت مزید 30 فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے۔

دوسری جانب وزارتِ خزانہ کے ترجمان نے بیان دیا کہ حکومت موجودہ مالی سال میں “سماجی تحفظ کے پروگرام” بڑھانے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے اصلاحاتی پالیسیوں پر کام کر رہی ہے۔ تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ محض بیانات کافی نہیں — عملی قدم ضروری ہیں۔

تجزیہ

یہ رپورٹ اس حقیقت کی عکاس ہے کہ پاکستان کی معیشت محض شماریاتی بحران کا شکار نہیں بلکہ ایک “ساختی بحران” میں مبتلا ہے۔ معیشت کی پیداوار بڑھنے کے باوجود روزگار میں اضافہ نہیں ہو رہا، جو “jobless growth” کی ایک واضح مثال ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر حکومت تعلیم، صحت، اور انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری نہیں بڑھاتی تو اگلے پانچ سال میں غربت مزید پھیل سکتی ہے۔

اسی طرح، خواتین کی افرادی قوت میں شمولیت کی شرح 25 فیصد سے کم ہے، جو ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو معاشی مواقع سے جوڑنا پاکستان کے لیے بقا کا سوال بنتا جا رہا ہے۔

مستقبل کا اثر

اگر حکومت نے ساختی اصلاحات نہ کیں تو آنے والے سالوں میں غربت کی شرح 30 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ یہ نہ صرف معیشت بلکہ سیاسی استحکام کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
تاہم اگر پائیدار اقدامات کیے جائیں — مثلاً صنعتی شعبے کی بحالی، روزگار کے مواقع، خواتین کی شمولیت، اور زرعی اصلاحات — تو غربت میں کمی ممکن ہے۔

عالمی بینک نے تجویز دی ہے کہ پاکستان کو اب “growth without equity” کے ماڈل سے نکل کر “inclusive growth” یعنی شمولیتی ترقی کی طرف بڑھنا ہوگا۔

اختتامیہ

پاکستان میں غربت کا بڑھنا ایک سنگین اشارہ ہے کہ موجودہ معاشی پالیسیاں عوامی فلاح کے مقاصد پورے نہیں کر رہیں۔ اگرچہ عالمی مالیاتی ادارے اور حکومت دونوں اصلاحات کی بات کر رہے ہیں، مگر عملی اقدامات کے بغیر یہ بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ایک ایسا معاشی ماڈل اپنائے جو نہ صرف اعداد و شمار بلکہ عام شہری کی زندگی میں حقیقی بہتری لائے — کیونکہ غربت کے خلاف جنگ صرف معاشی نہیں بلکہ انسانی بقا کی جنگ ہے۔