logo

بالی ووڈ میں پرسنالٹی رائٹس کا ہنگامہ: مشہور شخصیات کی عدالت سے تاریخی اپیل

بالی ووڈ میں پرسنالٹی رائٹس

بالی ووڈ میں پرسنالٹی رائٹس پر نئی قانونی بحث، مشہور شخصیات عدالت پہنچ گئیں تاکہ ان کی شناخت اور شہرت کا غلط استعمال روکا جا سکے۔

بالی ووڈ میں حالیہ ہفتوں کے دوران ایک نئی قانونی بحث نے زور پکڑ لیا ہے — موضوع ہے بالی ووڈ میں پرسنالٹی رائٹس۔ فلمی ستارے اب اپنی شہرت، تصویر، آواز اور انداز کو غلط استعمال سے بچانے کے لیے عدالتوں کا رخ کر رہے ہیں۔ کرن جوہر، ایشوریا رائے بچن اور ابھیشیک بچن جیسے نامور فنکاروں نے دہلی ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی ہیں تاکہ ان کی شناخت کو تجارتی یا غیر اخلاقی مقاصد کے لیے استعمال ہونے سے روکا جا سکے۔ یہ معاملہ صرف بالی ووڈ کا نہیں بلکہ ایک بڑے عالمی مسئلے — ڈیجیٹل شناخت کے تحفظ  سے جڑا ہوا ہے، جہاں AI اور سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کی شناخت منٹوں میں بگاڑی جا سکتی ہے۔

بالی ووڈ میں پرسنالٹی رائٹس کا مسئلہ تب زور پکڑا جب متعدد فنکاروں نے اپنی شناخت کے غلط استعمال پر قانونی تحفظ مانگا۔ کرن جوہر، ایشوریا رائے بچن اور ابھیشیک بچن نے دہلی ہائی کورٹ میں مؤقف اختیار کیا کہ ان کے نام، تصاویر اور حتیٰ کہ ان کے انداز و اطوار بھی جعلی پروفائلز، غیر مجاز ویب سائٹس، اور AI-generated مواد میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان درخواستوں میں کہا گیا کہ ان کی شہرت کو تجارتی فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جو نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ ان کے پیشہ ورانہ وقار پر بھی ضرب لگا رہا ہے۔

عدالت نے ان دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے حکم دیا کہ ایسے تمام آن لائن مواد کو فوری ہٹایا جائے جو ان شخصیات کی شناخت کے غلط یا فحش انداز میں استعمال سے متعلق ہو۔ یہ فیصلہ بالی ووڈ کے لیے ایک سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ پہلی بار عدالت نے ڈیجیٹل دنیا میں شناخت کے تحفظ پر اس قدر تفصیل سے بات کی ہے۔

پرسنالٹی رائٹس سے مراد کسی فرد کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی شخصیت، نام، تصویر یا آواز کے ذریعے مالی یا غیر مالی فائدہ اٹھا سکے — اور کوئی دوسرا شخص ان عناصر کو بغیر اجازت استعمال نہ کر سکے۔ یہ حقوق عام طور پر مشہور شخصیات کے لیے اہم ہوتے ہیں کیونکہ ان کی شناخت خود ایک “برانڈ ویلیو” رکھتی ہے۔ مثلاً اگر کسی کمپنی نے ایشوریا رائے کی تصویر اپنی مصنوعات کی تشہیر میں بغیر اجازت استعمال کی تو یہ ان کے پرسنالٹی رائٹس کی خلاف ورزی سمجھی جائے گی۔

بھارت میں ان حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی مخصوص قانون موجود نہیں۔ عدالتیں عموماً “کامن لا” یعنی سابقہ عدالتی فیصلوں اور اصولوں کی بنیاد پر ایسے مقدمات سنجھتی ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں ایسے کیسز بڑھنے لگے ہیں جہاں فنکاروں کی تصاویر، آوازیں یا حتیٰ کہ ان کے مشہور جملے (catchphrases) تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

2023 میں اداکار انیل کپور نے اپنی آواز، تصویر اور اپنے مشہور جملے “جھکاس” کے غیر مجاز استعمال پر مقدمہ دائر کیا تھا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ان کے جملے کو ان کی “شناخت کا حصہ” قرار دیا۔ اسی طرح جیکی شراف نے بھی اپنے نام اور عرفی الفاظ پر غیر قانونی استعمال کے خلاف مقدمہ جیتا۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت میں پرسنالٹی رائٹس کا پہلا مقدمہ 2002 میں سامنے آیا جب گلوکار دلیر مہندی نے اپنی مشابہت پر مبنی گڑیوں (ڈولز) کی تیاری پر عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے ان گڑیوں کی فروخت پر پابندی لگائی اور یہ فیصلہ بعد کے تمام مقدمات کے لیے بنیاد بن گیا۔

تاہم مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں پرسنالٹی رائٹس ابھی تک قابلِ وراثت نہیں۔ یعنی اگر کوئی مشہور شخصیت وفات پا جائے تو اس کے ورثاء ان کے نام یا تصویر پر قانونی اختیار نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر سوشانت سنگھ راجپوت کے والد نے بیٹے کی زندگی پر بننے والی فلم روکنے کی کوشش کی تو عدالت نے کہا کہ یہ حقوق ان کے انتقال کے بعد لاگو نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس، امریکہ کی کئی ریاستوں میں جیسے ٹینیسی یا کیلیفورنیا میں، “Right of Publicity” ایک descendable right سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مرنے کے بعد بھی کسی فنکار کے نام، تصویر یا آواز پر اس کے خاندان کا حق برقرار رہتا ہے — جیسا کہ ایلفس پریسلے کے معاملے میں ہوا۔

پس منظر

پرسنالٹی رائٹس کا تصور مغربی ممالک میں بیسویں صدی کے وسط میں سامنے آیا جب اشتہارات میں مشہور شخصیات کی تصاویر بغیر اجازت استعمال ہونے لگیں۔ امریکہ نے جلد ہی اسے قانونی تحفظ دیا تاکہ فنکاروں، کھلاڑیوں اور مشہور عوامی شخصیات کے معاشی مفادات محفوظ رہیں۔ بھارت میں اس تصور کی بنیاد اگرچہ عدالتوں نے رکھی، لیکن اسے کبھی واضح قانونی شکل نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے ہر کیس میں عدالت کو الگ سے وضاحت کرنی پڑتی ہے کہ کسی شخصیت کی شناخت کا دائرہ کہاں تک جاتا ہے — کیا صرف نام تک محدود ہے یا چہرے، آواز، لباس، اور مخصوص انداز تک پھیلتا ہے۔

ردِعمل

بالی ووڈ کے کئی فنکاروں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اداکارہ دیا مرزا نے کہا، “یہ صرف مشہور شخصیات کا نہیں، بلکہ ہر شہری کا حق ہے کہ اس کی شناخت کا غلط استعمال نہ ہو۔” سوشل میڈیا پر صارفین نے بھی عدالت کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ “AI کے اس دور میں انسان کی پہچان کی حفاظت سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔”

دوسری جانب کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ بالی ووڈ ستارے اس معاملے کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چکے ہیں۔ ان کے مطابق عام کاروبار اکثر نادانستہ طور پر کسی مشہور شخصیت کی تصویر استعمال کرتے ہیں، لہٰذا سزا کے بجائے انہیں آگاہی دی جانی چاہیے۔

تجزیہ

قانونی ماہرین کے مطابق بھارت میں پرسنالٹی رائٹس کا ابھرنا ایک مثبت پیشرفت ہے کیونکہ یہ فنکاروں کے معاشی حقوق کے تحفظ کو تقویت دیتا ہے۔ تاہم، جب تک یہ حقوق ایک واضح قانون کے تحت منضبط نہیں کیے جاتے، ان کے نفاذ میں تضادات رہیں گے۔  ڈیجیٹل دور میں AI ٹولز نے شناخت کے غلط استعمال کو خطرناک حد تک آسان بنا دیا ہے۔ اب کسی اداکار کی آواز یا چہرے کو نقل کرنا چند منٹوں کا کام ہے۔ اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالتوں کو اب “ڈیپ فیک” اور “AI-generated content” جیسے موضوعات پر بھی مخصوص رہنما اصول بنانے ہوں گے۔

مستقبل کا اثر

اگر حکومت بھارت میں پرسنالٹی رائٹس کے لیے جامع قانون بنا دے تو یہ بالی ووڈ سمیت پورے تخلیقی شعبے کے لیے ایک تاریخی سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ نہ صرف مشہور شخصیات بلکہ عام شہریوں کو بھی آن لائن شناخت کے تحفظ کا قانونی حق دے گا۔ AI کے بڑھتے استعمال کے پیش نظر، مستقبل میں ممکن ہے کہ “ڈیجیٹل آئیڈینٹی پروٹیکشن ایکٹ” جیسا کوئی قانون بنایا جائے جو عوامی اور نجی شناخت دونوں کی حفاظت کرے۔ اس سے اشتہارات، فلموں، اور آن لائن پلیٹ فارمز پر شفافیت بڑھے گی۔

اختتامیہ

بالی ووڈ میں پرسنالٹی رائٹس پر شروع ہونے والی یہ بحث دراصل ایک بڑے قانونی انقلاب کی طرف اشارہ ہے۔ جہاں فنکار اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے کھڑے ہیں، وہیں عدالتیں بھی اب ڈیجیٹل دور کے چیلنجز کو سمجھنے لگی ہیں۔ یہ فیصلہ محض چند مشہور شخصیات کے لیے نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے اہم ہے جس کی شناخت، آواز یا چہرہ آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں “ڈیٹا” بن چکا ہے۔ آخرکار، اپنی شناخت پر اختیار — یہی سب سے بنیادی انسانی حق ہے۔